امریکہ اور چین میں چھڑی خطرناک ٹریڈ وار

چین اور امریکہ کے درمیان آج کل ایک ٹریڈ وار چھڑی ہوئی ہے۔اس ٹریڈ وار یعنی کاروباری جنگ کا اثر بھارت سمیت دیگر ملکوں پر بھی پڑنا طے ہے۔ یہ کاروباری جنگ کیا ہے، اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ جب ایک دیش دوسرے دیش کے تئیں سرپرستی والا رویہ اپناتا ہے یعنی وہاں سے درآمد ہونے والی چیزوں اور سروسز پر ٹیکس بڑھاتا ہے تو دوسرا دیش بھی اسی انداز میں جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ایسے ہی سنرکشن وادی پالیسیوں کے اثر کو ٹریڈ وار یعنی کاروباری جنگ کہتے ہیں۔ اس کی شروعات تب ہوتی ہے جب ایک دیش کو دوسرے دیش کی کاروباری پالیسیاں نامناسب محسوس ہوتی ہیں یا وہ دیش روزگار پیدا کرنے کے لئے گھریلو مینوفیکچرنگ کو بڑھاوا دینے کو درآمد شدہ چیزوں پر کرایہ بڑھاتا ہے جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس ارادے سے چین کے خلاف کاروباری جنگ کاآغاز کیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین سے درآمد شدہ 200 ارب ڈالر کی چیزوں پر لگایا گیا نیا ٹیکس پیر سے نافذ ہوگیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اب تک چین سے درآمد شدہ 250 ارب ڈالر کی چیزوں پر ٹیکس لگا چکا ہے۔ یہ امریکہ کو ہونے والے چین کے ایکسپورٹ کا قریب آدھا حصہ ہے۔ ادھر چین نے امریکہ کے خلاف کاروبار میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے وہاں سے درآمد شدہ کئی چیزوں پر پیر کو نیا ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ پر دھمکانے کا الزام لگایا ہے۔ ٹکنالوجی کو لیکر دونوں ملکوں کے درمیان اس کاروباری ٹکراؤ کے درمیان چین نے اس طرح کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں دبے گا نہیں۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پونتیو نے کہا ہے کہ ہم جیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک نتیجہ حاصل کرنے جارہے ہیں جو چین کو عالمی طاقت کی طرح سے برتاؤ کرنے پر مجبور کرے گا۔چین کے ایکسائز محکمے نے کہا ہے کہ اس نے 5207 امریکی چیزوں پر پانچ فیصد اور دس فیصد فاضل ٹیکس لینا شروع کردیا ہے۔ اس میں شہد سے لیکر صنعتی کیمیکل تک شامل ہے۔ چینی ایسی 60 ارب ڈالر کی چیزیں سالانہ امریکہ سے منگاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری بات چیت بھی ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ چین نے امریکہ جانے والے اپنے ایک نمائندہ وفد کا دورہ بھی منسوخ کردیا ہے۔ روس کے جنگی جہاز خریدنے پرچین کی فوجی ایجنسی پر امریکہ کی پابندی سے ناراض چین نے امریکہ کے ساتھ اپنے فوجی مذاکرات بھی منسوخ کردئے ہیں۔ چین نے امریکی سفیر کو طلب کیا ہے اور فوجی سمجھوتہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا یہ پابندی چین کے ذریعے روس سے پچھلے سال دس ایتھیوپیتھس جنگی جہاز اور اسی برس سطح سے ہوا میں مار کرنے والی ایس 400- میزائلیں خریدنے کے سبب لگائی گئی ہے۔ چین کے فوجی ترجمان نے کہا کہ روس سے جنگی جہاز اور میزائل خریدنا دو سرداری والے دیشوں کے درمیان تعاون کے لئے اٹھایا گیا عام قدم ہے اور امریکہ کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ چین امریکہ کے درمیان جاری یہ ٹریڈ وار اپنی انتہا پر پہنچ رہی ہے اور یہ دنیا بھر کے لئے سنکٹ کا اشارہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟