گٹر میں گھٹ کر مرے 1700 غریب ایک بھی ذمہ دار کو سزا نہیں

ایک طرف تو اسرو 2022 میں خلا میں انسان بھیجنے کی تیاری کررہا ہے اور اس کے لئے وہ 10 ہزار کروڑ روپے بھی خرچ کرے گا۔ وہیں دوسری طرف آج بھی دیش میں گٹر صاف کرتے ہوئے ہر سال قریب 100 لوگوں کی موت ہورہی ہے۔ دیش کی راجدھانی دہلی میں ہی سیور کی صفائی کے دوران پھر کچھ مزدوروں کی موت ہوگئی۔ دہلی کے جنتر منتر پر دو دن پہلے لوگوں کی سیور میں دم گھٹنے سے موت ہوئی تھی۔ صفائی کرمچاریوں نے ایک دھرنا اور مظاہرہ کیا۔ ’’اسٹاپ کلنگ اس‘‘ کے اس آندولن میں طالبعلم ،رضاکار اور تھیٹر کی دنیا کے لوگ وکیل و عام شہریوں نے حصہ لیا۔ رضاکار بیجواڑہ ولسن نے اعلان کیا کہ اب اگر سیور میں کوئی موت ہوئی تو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ولسن نے کہا کہ ہم یہاں پیسوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے وقار اور اپنی عزت اور جینے کا حق مانگنے کے لئے آئے ہیں۔ جب سیور کی ہاتھوں سے صفائی کئی سال پہلے بند ہوگئی ہے تو کیوں اب بھی مزدور ان کی صفائی کے دوران مر رہے ہیں؟ آندولن کے ذریعے پی ایم مودی کو ایک میمورنڈم بھی دیا گیا ہے۔ اس میں مانگ کی گئی ہے کہ سیور میں موت ہونے پر معاوضہ 25 لاکھ روپے ملے۔ بھارت سرکار موتوں کی ذمہ داری لے اور افسران معافی مانگیں۔ سپریم کورٹ کے 2011 کے فیصلے پر سختی سے عمل ہو۔ سیور کی صفائی 100 فیصد مشینوں کے ذریعے ہوئے۔ صفائی ملازمین کے بچوں کو کالج تک پڑھائی اور پبلک اور پرائیویٹ اسکولوں میں مفت تعلیم دی جائے۔ سوچھ بھارت مشن اسکیم کے تحت لاکھوں ٹوائلٹ بنائے جارہے ہیں جن کے لئے سیپٹک ٹینک کی بھی ضرورت بڑھے گی ایسے میں ہم مان رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں مسئلہ اور بڑھ جائے گا۔ ہاتھوں سے صفائی انتظام کو ختم کرنے کے لئے سال2014-15 میں 570 کروڑ روپے کا بجٹ تھا جو 2017-18 میں صرف پانچ کروڑ روپے رہ گیا جبکہ سوچھ بھارت مشن کا بجٹ 2014-15 میں 4541 کروڑ روپے تھا جو 2017-18 میں بڑھ کر 16248 کروڑ روپے ہوگیا۔ میگسیسے ایوارڈ یافتہ ویجواڑا ولسن کی تنظیم دلتوں اور گندگی اٹھانے والوں کے لئے کام کرتی ہے۔ اوسطاً ہر برس971 مزدور گٹر کی صفائی میں مرتے ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے ایسے معاملوں میں آج تک ایک بھی ذمہ دار کو سزا نہیں ملی ہے۔ اس پر ہماری انجمن نے مرکز سے لیکر ریاستی سرکار تک کئی آر ٹی آئی داخل کی ہیں۔ ان میں پتہ چلا کسی بھی ریاست کی پولیس نے اس معاملہ میں ایک بھی چارج شیٹ داخل نہیں کی۔ الٹے سرکار کے پاس پورا ڈاٹا تک نہیں ہے۔ 2017 میں 28 سالہ مہلا ڈائریکٹر دیویا بھارتی نے سیور کی صفائی کرنے والے ملازمین کی ایک دستاویزی فلم ’کوشش‘ بنائی تھی۔ اس کا قومی سطح پر خوب تذکرہ ہوا۔ دیویا کہتی ہیں سیور صفائی کرنے والوں کی تعداد اس لئے بھی شرمناک ہے کیونکہ یہ تعداد آتنک وادیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے جوانوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہم تو صرف شہروں میں مرنے والوں کی اعدادو شمار اکھٹے کرتے ہیں جبکہ گاؤں اور چھوٹے قصبوں میں صفائی ملازمین کی موت کی تعداد تو سامنے ہی نہیں آپاتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!