چرچ کے بجائے سڑک پر کیوں ہیں کیرل کی راہبائیں

کیرل جیسی ریاست میں جہاں پچھلے سال 100 سے زیادہ بار ہڑتال کی گئی۔ راہباؤں کو انصاف دلانے کے لئے دھرنے پر بیٹھنا اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ دھرنے پر بیٹھنے والی پانچ سسٹرمشنریز آف جیسس سے جڑی ہوئی ہیں یہ لیٹن کیتھولک آرڈر کے تحت آتی ہے جس کا ہیڈ کوارٹر 1994 میں جالندھر میں بنا تھا۔ کیرل میں چرچ کی تین برانچیں( کانوینٹ) ہیں۔انہی کانوینٹ میں یہ رہتی ہیں۔ 44 سال کی راہبہ جنہوں نے بشپ فرنکوملکل پر آبروریزی کا الزام لگایا ہے۔ بشپ چرچ کی اس برانچ کی پیٹن ہیں اور اس طرح سب سے طاقتور اتھارٹی بھی ہیں۔ اس معاملہ میں شکایت اسی سال جون میں کیرل پولیس میں درج کرائی گئی تھی۔ یہ معاملہ 2014 کا ہے۔ شکایت میں راہبہ نے بتایا ہے کہ ملکل جب بھی جالندھر سے آتے تھے وہ ایک کمرہ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اسی میں راہبہ کو یرغمال بنا کر ریپ کیا گیا۔ جنسی استحصال کا یہ سلسلہ 2016 تک چلتا رہا۔ سسٹر انوپما کے مطابق آخر میں متاثرہ راہبہ نے مدر جنرل کو زبانی طور سے شکایت کی تھی۔ اس کے بعد پادری اور دوسرے پادریوں کے سامنے بات رکھی گئی اور ان کی صلاح پر کاآرڈینل جارج النچری جو سائرو مالابار کے کیتھولک چرچ کی چیف اور ریاست کے چیف کیتھولک عہدے دار ہیں انہیں خط بھیجا۔ الٹا متاثرہ اور اس کے سپورٹ کررہے لوگوں کے خلاف شکایت درج کرا دی گئی۔ ملزم جالندھر کے بشپ فرنکو ملکل کو اب ویٹیگن نے ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ یہ فیصلہ ریپ معاملہ میں جانچ شروع ہونے اور چوطرفہ تنقیدوں اور راہباؤں کے دھرنے پر بیٹھنے کے بعد کیا گیا ہے۔ پولیس نے بدھ کو ملکل سے پوچھ تاچھ کی۔ 54 سالہ ملکل کے خلاف مختلف انجمنوں اور راہباؤں نے گرفتاری کرنے کے لئے بدھوار کو 12 ویں دن بھی اپنا مظاہرہ جاری رکھا۔ یہ اکلوتا معاملہ نہیں جب کیرل کے چرچ سے جڑا اسکینڈ سامنے آیا ہے۔ ریاست میں عیسائی آبادی بیشک 18 فیصدی ہے مگر یہ بڑا اثر رکھتی ہے۔ جو بھی اسکینڈ سامنے آئے ان میں زیادہ تر متاثرہ کے بتائے چرچ ملزم کے ہی حق میں فیصلہ لیتا دکھائی دی۔ ان میں فادر رابن کا معاملہ بھی اہم ہے۔ ان پر نابالغ طالبہ سے ریپ اور حاملہ کرنے کا الزام لگا تھا۔ رابن کا اتنا اثر تھا کہ چرچ نے شروعات میں ہیں متاثرہ کے والد پر دباؤ ڈالا کہ وہ پولیس کے سامنے بتائیں کہ بیٹی سے ریپ انہوں نے خود کیا۔ حالانکہ بعد میں جاکر وڈاککمچیری کو گرفتار کیا گیا تو متاثرہ نے بیان بدل ڈالا۔ پچھلے مہینے ہی اس نے عدالت میں کہا کہ تعلق رضامندی سے بنائے۔ یہ اس لڑکی اس وقت بالغ تھی۔ پادری اکثر خوف دکھا کر کام کرتے ہیں جبکہ انہیں ماننے والا آنکھیں بند کر ان کی جائز ناجائز باتیں مانتا ہے۔ متاثرہ کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر اس نے مخالفت کی تو چرچ اور ایشور کا قہر ٹوٹے گا۔ راہباؤں کے دھرنے میں سماج کے ہر طبقے کی حمایت مل رہی ہے۔ چرچ میں اس طرح کی حرکتوں کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!