کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھنے میں پوتن چوک گئے

ایک طرف امریکہ اور نارتھ کوریا کی ٹھنی ہوئی ہے تو دوسری طرف امریکہ اور روس میں ٹھنتی جارہی ہے۔ ایتوار کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ امریکہ کو 755 سفارتکاروں کو روس سے ہٹانا ہوگا۔ امریکہ کی طرف سے خود پر سخت پابندی لاگو کئے جانے کے بعد روس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ امریکی سینیٹ نے جمعہ کو ایک بل کو منظوری دی جس میں 2016 ء کے امریکی صدارتی چناؤ میں روس کی مبینہ شمولیت اور 2014ء میں کریمیا پر قبضہ کے لئے اس پر پابندی سخت کرنے کی بات ہے۔ ان قدموں سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی رشتوں میں نئی شروعات کی امید ختم ہوگئی ہے۔ اس کی نظر اب دونوں دیشوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ روسی صدر پوتن نے امریکی صدر ٹرمپ کی جیت پر ایک نئے طرح کے رشتوں کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ صدر پوتن نے سمجھنے میں چوک کی ہے۔ ٹرمپ کی چناؤ کمپین سے روس ۔امریکی رشتوں کے نئی شروعات کے امکانات اور ایسی توقعات جتانے والے اشارے ملے جن کی بنیاد پر روس نے امریکی چناؤ میں اس حد تک دخل اندازی کی جو امریکی خفیہ ایجنسیوں کے مطابق غیرمعقول تھی۔فی الحال اس موضوع پر جانچ ضروری ہے کہ روس نے کس سطح تک امریکی صدر کے عہدے کے امیدوار ٹرمپ کی مدد کی۔ یہ باتیں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رشتوں کو خراب ہونے کی ایک پس منظر دیتی ہیں۔روس نے حالانکہ معاملہ میں کسی بھی طرح کے رول سے انکار کیا ہے لیکن صاف ہے کہ روس امریکہ میں کھلے نظریات کے نئی سیاسی قیادت سے کافی امیدیں لگائے ہوئے تھا۔ روس نے توقع کی تھی کہ ماحول بدلے گا۔ اس نے کریمیا پر روسی قبضے کے بعد سامنے آئے مغربی ملکوں کی پابندیوں کو ہٹایا جانا شامل تھا۔ اس سے بھی زیادہ روس دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے سمجھوتے کی امید کررہا تھا جس کے تحت امریکی شام سمیت خودساختہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑائی میں روس سانجھے طور سے ساتھ دے گا لیکن اب تک یہ توقعات حقیقت میں بدلتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ لگتا ہے کہ روس نے صدر ٹرمپ کے امکانی کامیابیوں کو لیکر ایسی امیدیں پالی ہوئی تھیں جو حقیقت کی زمین سے کوسوں دور تھیں۔ کیا پوتن نے ٹرمپ کو ایک مضبوط اور ملتے جلتے نظریات والا نیتا سمجھا تھا، انہیں ڈپلومیٹک اور سیاسی طور سے ایک سنجیدہ شخص مانا تھا جسے دباؤ میں لینے کے ساتھ ہی حاوی ہوا جاسکتا ہے؟ دونوں طرح سے روس امریکی چناؤ میں مداخلت اور اس کے بعد ضروری جانچ کے چلتے کسی بھی طرح کی نئی شروعات کو روک دیا ہے۔ روس نے شاید امریکی پارلیمنٹ میں اپنے اقدامات کو لیکر احتجاج کو سمجھنے اور ٹرمپ کے قریبیوں کو کیپٹل ہل کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟