محبوبہ درست تو آید ، آگے کا راستہ آسان نہیں

جموں و کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لے کر محترمہ محبوبہ مفتی نے ریاست میں قریب تین مہینے سے چلی آرہی بے یقینی کو ختم کردیا ہے۔ بی جے پی پہلے کی طرح حکومت میں حصہ دار ہے۔ 56 سالہ محبوبہ جموں و کشمیر کی پہلی اور دیش کی پانچویں خاتون وزیر اعلی بن گئی ہیں۔ پیر کو انہوں نے 22 وزرا کے ساتھ عہدۂ راز داری کا حلف لیا۔ ان میں سے 11 پی ڈی پی کے ،9 بھاجپا کے اور 2 پیپلز کانفرنس کے لیڈر شامل ہیں۔ بھاجپا کے نیتا نرمل سنگھ صوبے کے نائب وزیر اعلی بنائے گئے ہیں۔ کانگریس نے حلف برداری تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ یہ شاید پہلی بار ہے جب دیش کے چاروں کونوں میں خاتون وزیر اعلی ہیں۔ مغربی بنگال ممتا بنرجی، گجرات آنندی پٹیل اور جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی ، تاملناڈو میں جے للتا ، راجستھان میں وسندھرا راجے۔ یعنی دیش کی اب کل پانچویں خاتون وزیر اعلی ہیں۔ محبوبہ دیش کی پہلی مسلم وزیر اعلی تو نہیں ہیں ، سعیدہ انورا تیمور 1980ء میں آسام کی وزیر اعلی رہ چکی ہیں لیکن فی الحال کٹر پسند طاقتوں کی طرف سے ساکھ کا بحران جھیل رہے اسلام میں اپنی سادگی لیکن تیز ترار مسلم سیاستداں والی تصویر کے ذریعے انہیں اس مورچے پر بھی ایک بڑا کردار نبھانا ہوگا۔ ریاست میں بی جے پی۔ پی ڈی پی کی سرکار بننے کی کوشش بیشک ختم ہوگئی ہے لیکن اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ دونوں پارٹیاں مل کر میل ملاپ سے سرکار چلانے کی کوشش کریں۔اس کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ نیشنلزم کو لیکر ہونے والے چلن و لڑکوں کی ناراضگی پر کنٹرول رکھنا ہوگا۔ جہاں بی جے پی ان دنوں نیشنلزم کی آئیڈیالوجی کو لیکر جارحیت اپنائے ہوئے ہے، وہیں پی ڈی پی حمایتیوں کے لئے اس شکل میں لینا چیلنج بھرا ہوگا۔ ایک اور چیلنج اس سرکار کے سامنے ہے ان علیحدگی پسندوں سے نمٹنا۔ بی جے پی کسی بھی حالت میں نہیں چاہے گی کہ محبوبہ حکومت علیحدگی پسندوں کو لیکرنرم رویہ اپنائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی کے لئے دیش کے باقی حصوں میں اپنا ووٹ بینک کھسکنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گااور تقریباً یہی صورت پی ڈی پی کی بھی ہے اگر وہ حریت یا پھر دیگر کٹر پسندوں کے خلاف سخت رویہ اپناتی ہے تو اس کے لئے ریاست میں اپنی بنیاد بچا پانا مشکل ہوجائے گا۔ بی جے پی نے مفتی صاحب کی سرکار میں جموں خطہ کی ترقی میں ڈھیل دی تھی۔ اس وجہ سے جموں خطہ میں بی جے پی سے لوگ ناراض ہیں۔ اس بار ان کی کوشش ہوگی کہ جموں میں تیزی سے ڈیولپمنٹ ہو جبکہ پی ڈی پی کا سارا زور کشمیر وادی پر رہے گا۔ریاست کے دونوں حصوں میں ڈیولپمنٹ کو لیکر کتنی آپسی کھینچ تان ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست میں کون سے شہر کو اسمارٹ سٹی بنایا جائے؟ ریاست سے ایک ہی سٹی کو اسمارٹ سٹی بنایا جاسکتا ہے، لیکن کوئیبھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے کہ وہ جموں اور سرینگر میں سے کسی ایک کو چنے۔ محبوبہ طویل عرصے سے سیاست میں ہیں اور انہوں نے زمینی سطح پر تنظیم کو کھڑا کرنے سے لیکر پارٹی لیڈر شپ تک اپنی سیاسی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن انتظامی ذمہ داری پہلی بار اٹھائی ہے۔ معلق اسمبلی نے دونوں پارٹیوں کو اپنے اختلافات کو درکنار کرساتھ آنے پر مجبور کیا ہے۔ مفتی محمد سعید محبوبہ کے مقابلے تھوڑا نرم تھے اور کچھ معاملوں میں انہوں نے تال میل بھی کیا ہے۔ اگر یہ لچیلا پن اور آپسی سوجھ بوجھ بنی رہی تو اتحادی حکومت کا یہ دوسرا دور بھی ٹھیک ٹھاک چل سکتا ہے۔ جموں و کشمیر پر ساری دنیا کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ خاص طور پر ہمارے پڑوسی پاکستان کی۔ وہ بھی بڑی بے چینی سے دیکھ رہا ہے کہ کیسے چلتی ہے محبوبہ سرکار۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!