وکی لکس کے بعد اب پنامہ پیپرس!

تفتیشی جرنلسٹوں کے ایک گروپ نے ہندوستان سمیت دنیا کی سرکردہ ہستیوں کے ذریعے پنامہ کی معرفت بیرون ملک میں پیسہ چھپانے کا ایک اور سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ وکی لکس کی طرح تفتیشی جرنلسٹوں کی ایک تنظیم نے تقریباً 8 مہینے کی تفتیش کے بعد سامنے آئی اس رپورٹ میں قریب 200 ملکوں کے گراہکوں کے ناموں کا انکشاف کیا ہے۔ پنامہ پیپرس کے نام سے سامنے آئے ان مالی سودوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکردہ لوگوں نے ٹیکس چوری کے لئے’’ ٹیکس ہیونس دیش‘‘ پنامہ میں کمپنی کھلوائی اور غیر قانونی مالی لین دین کو انجام دیا۔ سیشلز ، ورجن آئرلینڈ اور پنامہ جیسے کچھ ایسے ملک ہیں ، جو اپنے یہاں کمپنی قائم کرنے یا یہاں سے چلانے پر کوئی ٹیکس نہیں لیتے۔ پیسہ جمع کرنے پر پوچھ تاچھ بھی نہیں ہوتی ہے اس لئے انہیں ’’ٹیکس ہیونس‘‘ دیش بھی کہا جاتا ہے۔ ایک سال پہلے میونخ (جرمنی)کے ایک اخبار نے تفتیشی صحافیوں کے محاذ انٹرنیشنل کنسورٹیم انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ نے اس پنامہ پیپرس کا خلاصہ کرنے کے لئے قرار کیا تھا اس کے تحت بھارت کے ایک انگریزی اخبار سمیت دنیا بھر کے 100 میڈیا اداروں کے صحافیوں نے ایک کروڑ دستاویزوں کی پڑتال کے بعد جو خلاصہ کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر کی نامی گرامی ہستیوں سمیت بھارت کے کئی لوگوں نے پنامہ میں کمپنیاں کھول کر کالا دھن جمع کیا۔صحافت دنیا کے اب تک کے سب سے بڑے پردہ فاش نے 200 ملکوں کے سربراہ مملکت ، سیاستدانوں، افسران اور کاروباریوں ، فلم اداکاروں اور کھلاڑیوں کے چہرے سے نقاب اتاردیا ہے اور ان اندیشات تصورات کی پھر تصدیق کردی ہے۔ سرمایہ داری کے مالی دھندوں میں بہت کچھ سیاہ ہے اور سماج کے لئے خطرناک بھی ہے۔ حالانکہ یہ کہنا ہوگا کہ ایسی خبریں اب کم چونکانے لگی ہیں۔ حال ہی میں جیسے وجے مالیہ ہزاروں کروڑ روپے کا قرض چکائے بنا دیش چھوڑ کر چلے گئے اور سرکاری بینکوں و انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی کارروائی سے فی الحال کوئی خاص فرق پڑتا نہیں دکھائی دیتا۔ تو لوگوں میں ایسی خبروں کے تئیں مایوسی دکھائی دینے لگی ہے۔ اس فہرست میں کئی سربراہ مملکت ایسے ہیں جو ڈکٹیٹر یا کرپٹ حکمراں کی ساکھ رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ شبہ ہونا فطری ہی ہے کہ کہیں ٹیکس بچانے کے نام پر کالے دھن کو سفید کرنے کا کھیل تو نہیں ہورہا تھا۔ پنامہ کی اس کمپنی کو 40 سے زائد دیشوں میں سرگرمی یہی اشارہ کرتی ہے کہ اسے بین الاقوامی سطح پر سرپرستی حاصل تھی۔ دراصل مسئلے کی اصلی جڑ کئی دیشوں کے وہ قانون ہی ہیں جن کے تحت خفیہ کھاتہ کھولنا پیسے کے ذرائع کو چھپانا اور کاغذی کمپنیاں بنانا آسان ہے۔ ان کی معیشت موٹے طور پر دنیا بھر کے امیروں اور غیر قانونی ڈھنگ سے کمائے گئے پیسے کو محفوظ کرنے والوں کے پیسے سے چلتی ہے۔ حالانکہ تازہ انکشافات کے ذریعے سے یہ بتادیا گیا ہے کہ کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے میڈیا میں سچ اجاگر کرنے کا جرأت ختم نہیں ہوئی ہے اور سچ ہمیشہ کے لئے دبایا نہیں جاسکتا لیکن اس جرأت کو پائیداری تبھی ملے گی جب ملک کی حکومتیں اپنی حدود میں اپنے قوانین کے تحت کارروائی کریں اور ایک دوسرے سے مل کر ایسے انٹرنیشنل قانون بنائیں جو اس طرح کی سرگرمیاں چلانے والے کسی بھی اہم اور طاقتور شخص کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بھارت کے وزیر مالیات ارون جیٹلی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے اس کی جانچ کی ضرورت تو بتا دی ہے لیکن ویسی جانچ کتنی حقیقت ہوگی اور کتنا فسانہ ، کہا نہیں جاسکتا۔ حالانکہ کالی کمائی پر ایک اسپیشل جانچ ٹیم پہلے ہی سے سپریم کورٹ کی نگرانی میں کام کررہی ہے۔ اس سے کتنا کچھ باہر آ پائے گا یا ان لوگوں پر قانونی شکنجہ کتناکسا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے اور وقت ہی بتائے گا اس فہرست میں جن کے نام آئے ہیں ان میں سے بہتوں نے تو انکار بھی کردیا ہے۔ دیکھیں کہ کیا یہ تفتیشی انجمن آنے والے دنوں میں کوئی دستاویزی ثبوت بھی پیش کرتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!