کیرل،مغربی بنگال اور آسام میں مسلم فیکٹر

پانچ ریاستوں میں ہورہے اسمبلی چناؤ میں مسلم فیکٹر بن کر سامنے آیا ہے۔ جن پانچ ریاستوں میں چناؤ ہورہے ہیں ان میں کیرل، آسام، مغربی بنگال تو دیش کی سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاستوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہاں سب سے بڑے ووٹ بینک کی شکل میں مسلمان ہیں اور ان کا ووٹنگ پیٹرن چناؤ نتائج کا ایک بہت اہم پہلو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پارٹیاں ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔ان ریاستوں میں تو کچھ سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلم ووٹ 50فیصدی کے قریب ہیں۔ واقف کاروں کے مطابق ان تین ریاستوں میں مسلم ووٹروں کا رخ انترم نتیجے طے کرے گا لیکن مسلم آبادی کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے سامنے کئی متبادل ہیں۔ 2011ء کے چناؤ اور اس بار کے چناؤ میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ پچھلے اسمبلی چناؤ میں مسلم ووٹ بینک تھے لیکن تب بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھی لیکن اس بار خاص کر آسام میں مسلم ووٹ بٹنے کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ ادھر ایک اہم شخصیت یوڈی ایف کے بدرالدین اجمل اور کانگریس کے ترون گگوئی دونوں کو اپنے ووٹ بینک پر بھروسہ ہے۔ پچھلے کچھ چناؤ میں مسلمانوں کے درمیان اجمل کی پکڑ بڑھ رہی ہے اگر یہ دباؤ اس بار بھی جاری رہا تو مسلسل چوتھی جیت کے مشن پر نکلے ترون گگوئی کو دھکا لگ سکتا ہے۔اسی طرح کیرل میں لیفٹ کی رہنمائی والے ایل ڈی ایف اور کانگریس کی رہنمائی والے یو ڈی ایف کے درمیان مسلم ووٹ منتقل ہورہے ہیں۔اس بار بھی کم و بیش ایسی ہی صورت ہے لیکن اس بار بڑا فرق یہ ہے کیرل میں آر ایس ایس کی رہنمائی میں بی جے پی نے تمام ہندو گروپوں کو پہلی بار سیاسی طور پر سرگرم ہونے میں کامیابی پا لی ہے۔ ادھر مغربی بنگال میں مسلمانوں نے حالیہ دنوں میں ممتا بنرجی کا ساتھ دیا ہے۔ اس بار بھی ممتا نے ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپوزیشن کے کئی الزامات کو جھیلا ہے، خاص کر مالدہ کی واردات اور بردوان دھماکے میں بی جے پی نے ممتا پر خوش آمدی کے الزام بھی لگائے۔ دوسری طرف یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وزیر اعظم کی چناؤ ریلیوں میں ان ریاستوں کے ووٹروں پر اثر دکھائی پڑنے لگا ہے۔ مودی نے آسام میں اب تک غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کا اشو نہ اٹھا کر ریاست کی ترقی کا اشو اٹھایا تو مغربی بنگال میں اذان کے دوران اپنی تقریر روک دی۔ حالانکہ لوک سبھا چناؤ میں جب آسام میں بی جے پی کو غیر متوقع کامیابی ملی تھی تب اس کے پیچھے ناجائز بنگلہ دیشیوں کا اشو جیت میں کافی اہم تھا لیکن تب اس اشو کی وجہ سے ہندو ووٹ بینک کا پولرائزیشن ہوا تھا اور مسلمان ووٹ کانگریس اور یوڈی ایف میں بٹ گیا تھا لیکن اس بار مسلم ووٹ کے نہیں بٹنے کے اندیشے کے درمیان بی جے پی ایسے حساس اشوز کو چناؤ میں لانے سے شاید پرہیز کرے۔ ادھر کانگریس ان ریاستوں میں مسلم ووٹ کی بدولت اپنے لئے اچھے دنوں کی واپسی کی امیدیں لگائی ہوئی ہے۔ خاص کر آسام اور کیرل میں کانگریس کو اگر اپنی سرکار بنائے رکھنے کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے تو اس کے پیچھے ایم فیکٹر (مسلم) ہیں۔ پارٹی کی حکمت عملی ہے کہ بہار کی طرز پر بی جے پی کو ہرانے کے لئے مسلم ووٹ متحد ہوسکتے ہیں جس کا فائدہ اسے ملے گا۔بہار میں بھی اویسی سمیت کئی ایسی پارٹیاں چناؤ میں کھڑی ہوئی تھیں جنہوں نے مسلم ووٹ پر دعوی پیش کیا تھا لیکن جب چناؤ نتیجہ سامنے آیا تو یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ ایک ہی پارٹی کے حق میں متحد ہوکر کھڑے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!