تنزیل احمد کے قتل سے کھڑے ہوئے کئی سوال

اترپردیش کے بجنور شہر میں قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کے بہادر ڈی سی پی تنزیل احمد کے قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان پرجس طرح تابڑ توڑ گولیاں ماری گئیں اس سے صاف ہے کہ قاتلوں کا پورے خاندان کو ختم کرنے کا ارادہ تھا۔ سیہوارہ کے علاق سہسپور کے باشندے تنزیل احمد اپنی فیملی کے ساتھ ایک شادی تقریب میں شرکت کر کارسے لوٹ رہے تھے لیکن دو بائیک سواروں نے گولیوں کی بوچھار کردی۔ بدمعاشوں نے9 ایم ایم کی پستول سے تنزیل کو24 گولیاں ماریں اور فرار ہوگئے۔ واردات میں ان کی اہلیہ شدیدزخمی ہوگئیں جبکہ دو بچے سیٹ کے نیچے چھپ گئے جس سے ان کی جان بچ گئی۔ تنزیل کی بیٹی جمنش فریدہ نے سہمے ہوئے منظر کو بیاں کیا۔ کار ابھی سہسپور میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ سڑک پر بن رہی نالی پر گاڑی کی رفتار دھیمی کردی۔ تبھی منہ پر کپڑا باندھے بائیں سائڈ سے بائیک پر سوار دو لوگ آئے اور ممی کی طرف سے کھڑکی پر گولی چلادی۔ خطرہ بھانپتے ہی پاپا نے ہمیں کہا کہ ہیڈ ڈاؤن، تو میں اور میرے بھائی شاہباز نیچے ہوکر سیٹ کے نیچے چھپ گئے اور بائیک والوں نے فائرننگ شروع کردی۔ 10 منٹ تک فائرننگ چلتی رہی اس کے بعد حملہ آور بھاگ گئے۔ بڑی دیر بعد دیکھا تو پاپا خون سے لت پت پڑے تھے۔ اس نے بتایا کہ گولیاں لگنے کے بعد پاپا نے ممی کی گود میں نیچے جھک کر بچنے کی کوشش کی 5 منٹ پر پیچھے سے تایا کی کار آگئی، ممی کو بھی گولیاں لگیں اور ان کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ کیونکہ تنزیل احمد این آئی اے سے وابستہ تھے اس لئے اس طرح کے اندیشات کا پیدا ہونا فطری ہے کہ کہیں ان کے قتل کے پیچھے دہشت گرد عناصر کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ خیال رہے کہ جس بجنور ضلع میں انہیں نشانہ بنایا گیا وہاں کچھ وقت پہلے ہوئے بم دھماکے کی جانچ این آئی اے کررہی تھی۔غور طلب ہے کہ بجنور ضلع ایک لمبے عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔ سال2001ء میں آتنک وادیوں نے تھانہ شاہ کوتوالی چوکی پر موجود ایک دروغہ اور پولیس ملازم کو مار ڈالا تھا۔ 2014ء میں 12 ستمبر کو سمی کے 6 دہشت گرد ضلع ہیڈ کوارٹر کے محلہ زائران میں دھماکے کے بعد فرار ہوگئے تھے۔ دیش کی سب سے اہم جانچ ایجنسی این آئی اے کے ڈپٹی ایس پی کے قتل سے ضلع کا ہر شخص سکتے میں ہے۔ ضلع میں ہر کسی کی زبان پر تنزیل احمد کے قتل کو آتنکی واردات سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ اس واردات سے جہاں قاتلوں کا حوصلہ تو صاف ہوتا ہے وہیں اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی حالت پر نئے سرے سے سوال کھڑے کرتی ہے۔ اترپردیش سرکار چاہے جیسے دعوے کیوں نہ کرے، صوبے میں قانون و انتظام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ تنزیل احمد کا قتل کوئی عام قتل کی واردات نہیں ہے۔ پولیس فورس کے ایک سینئر افسر کا اس طرح سے قتل کرنا حملہ آوروں کے حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر آتنکی اس واردات کے پیچھے ہیں تو ہماری جانچ ایجنسیوں کوقاتلوں کو ڈھونڈ نکالنا ہوگا اور انہیں سزا دلانی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے سکیورٹی جوان اور جانچ ایجنسیوں کا حوصلہ گرے گا اور حملہ آوروں کی بھی خود اعتمادی بڑھے گی۔ مرکزی سرکار کو بھی یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ این آئی اے اور دیگر اسی طرح کی ایجنسیوں کے جو افسر خاص طور سے آتنکی وارداتوں کی جانچ کررہے ہیں انہیں سکیورٹی ہر سطح پر مہیا کروائی جائے۔تنزیل قتل سے ایک بات تو صاف ہوتی ہے کہ حملہ آوروں کو ان کی پوری نقل و حرکت کی جانکاری تھی اور ممکن ہے کہ وہ ان کی کار کے پیچھے لگے ہوں اور موقعہ پاتے ہی اپنا کام کرگئے۔ ہمیں اس بہادر افسر کی شہادت پر ناز ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟