جموں و کشمیر میں جم کر ووٹ گورنر رول کیلئے نہیں پڑے تھے!

جموں و کشمیر میں جمعہ کے روز گورنر رول نافذ کردیا گیا ہے۔ ریاست میں کوئی بڑی پارٹی سرکار بنانے میں کامیاب نہیں رہی۔ ایسے میں مرکزی حکومت نے گورنر رول نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ نہیں ہوتا یہاں گورنر رول نافذ ہوتا ہے۔ گورنر این۔ این ووہرا نے اس کی باقاعدہ طور پر انتظامی کمان سنبھال لی ہے۔ گورنر رول نافذ ہونے سے جموں میں خاص طور سے مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ حالانکہ گذشتہ ماہ ہوئے اسمبلی چناؤ میں صوبے کے تین زون میں ریکارڈ طور پولنگ ہوئی تھی۔ اس کے باوجود سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادی ایجنڈے کی وجہ سے اتحادی سرکار نہیں بن پائی۔ ہر پارٹی گورنر رول کو لیکر ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگی ہے۔ غور طلب ہے کہ ان اسمبلی چناؤ میں 87 ممبری اسمبلی میں پی ڈی پی کے 28 منتخب ممبر اسمبلی کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔ اس کے بعد بھاجپا دوسرے نمبر پر25 ممبروں کے ساتھ سامنے آئی۔ نیشنل کانفرنس کو15، کانگریس کو12 اور دیگر کو 7 سیٹیں ملی تھیں۔ گورنر رول کی پوزیشن بڑے ہی ڈرامائی ڈھنگ سے بنی جسے لیکر عمر عبداللہ پر پی ڈی پی نے سنگین الزام لگائے ہیں۔ پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر کا کہنا ہے کہ سیاسی بحران کیلئے عمر عبداللہ ہی ذمہ دار ہیں۔ ادھر عمر کا کہنا ہے چناؤ نتیجے آئے تین ہفتے ہونے والے تھے باوجود اس کے پی ڈی پی سرکار بنانے کیلئے آگے نہیں آئی۔ اس درمیان پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون کا کہنا ہے کہ گورنر رول سے بہتر ہے پھر سے چناؤ ہوں۔ معلوم ہوکہ کانگریس والے اتحاد نے پی ڈی پی کو بغیر شرط حکومت بنانے کے لئے اپنی حمایت دینے کا بھی اعلان کیا لیکن وہ شش و پنج میں مبتلا پی ڈی پی فیصلہ نہیں لے پائی۔ ادھر قومی دھارا سے وابستہ لیڈروں کا کہنا ہے کہ گورنر رول کے تجربے ملازمین کے لئے کبھی اچھے نہیں رہے اس لئے ضروری ہے کہ یہاں جمہوری سرکار قائم ہو۔ جموں و کشمیر میں بیشک کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی لیکن ریاست کے لوگوں کے ذریعے تمام طرح کے خطرات کے بیچ بھاری پولنگ ریاست کے گورنر رول کے لئے نہیں بلکہ نئی سرکار کیلئے کی تھی لیکن دور رس بین الاقوامی اہمیت رکھنے والے اس مینڈیٹ پر کامیاب ہوئی بڑی پارٹیوں کے سیاسی مفاد اور اپنی توقعات حاوی رہیں۔ پی ڈی پی اور بھاجپا دونوں نے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا اور ریاست کو مرکزی رول میں جھونک دیا۔ جیسا میں نے کہا کہ دیش کئی ریاستوں سے الگ جموں و کشمیر میں اس طرح سے نافذ گورنر رول کو صدر راج نہیں مانا جاتا اور ایسا جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ92 کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت گورنر خود ہی ریاست میں گورنر رول نافذ کرسکتے ہیں اور اس کی میعاد6 مہینے ہی ہوتی ہے۔ بعد میں صدر راج نافذ کردیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک پائیدار اور اچھا انتظامیہ کی سخت ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں فریکچر مینڈیٹ آنے کے بعد جب اتحادی سرکار نہیں بن رہی تو گورنر رول ہی سب سے بہتر فی الحال متبادل ہے اور گورنر رول کے لئے تینوں ہی پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟