دہلی میں بجا چناؤ کا بگل!

وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں بھاجپا کی مقبولیت کا بڑا امتحان اگلے ماہ دہلی میں ہوگا، جب دہلی اسمبلی کی 70 سیٹوں کے لئے 7 فروری کوووٹ ڈالے جائیں گے اور 10 کو نتیجے آئیں گے۔ قریب ایک سال سے صدر راج سے کام چلا رہی راجدھانی میں اہم مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان مانا جارہا ہے لیکن پیرکو دہلی چھاؤنی بورڈ کے چناؤ کے اشارے مانیں تو لوگوں نے کانگریس کو پوری طرح خارج نہیں کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے جب چناؤ کمیشن نے چناؤ کی تیاری کیلئے سب سے کم وقت دیا ہے۔ پچھلے چناؤ میں کمپین کیلئے40 سے60 دن ملے تھے لیکن اس بار 25 دن میں ہی امیدواروں کو عوام کا دل جیتنا ہوگا۔ آج کے حالات کے مطابق ’عام آدمی ‘پارٹی نمبر ون پر چل رہی ہے۔ وہ سبھی 70 سیٹوں پر اپنے امیدوار اعلان کرچکی ہے۔ اس کے امیدواروں نے کئی دن پہلے ہی اپنی کمپین شروع کردی تھی اور دوسری طرف بھاجپا نے ابھی تک تو نہ یہ اشارہ دیاہے کہ اگر وہ چناؤ میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کا وزیر اعلی کون ہوگا اور نہ ہی ایک بھی امیدوار کا نام اعلان کیا ہے۔ بھاجپا کے اندر اتنی گروپ بازی ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ کو خود کمان سنبھالنی پڑے گی اور ہریانہ ، مہاراشٹر کی طرز پر چناؤ لڑنا ہوگا۔ بھاجپا کیلئے دہلی میں وہ ماحول نہیں ہے جو لوک سبھا چناؤ کے وقت ہوا کرتا تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں نریندر مودی کی رام لیلا میدان میں ہوئی ریلی میں مشکل سے 25-30 ہزار لوگ شامل ہوئے تھے اور ان کی تقریر میں بھی دم نہیں تھا۔ رہی سہی کثر مودی نے اروند کیجریوال پر سیدھا حملہ کرکے انہیں ہیرو بنا دیا ہے۔ دہلی کے جنتا بی جے پی سے مایوس ہے کیونکہ 1 سال کے قریب صدر راج میں اس کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ بجلی، پانی، لچر قانون و انتظام، کرپشن ہیلتھ اور بے روزگاری وغیرہ کسی بھی مورچے پر مرکزی سرکار کامیاب ہوتی نہیں دکھائی دی۔ پچھلے ایک سال میں لوک سبھا چناؤ میں مہنگائی سب سے بڑا اشو بن کر ابھرا تھا جو آج بھی لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ روز مرہ کی ضرورت کی چیزیں خاص طور پر سبزیوں کے دام تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر ہم بجلی کی بات کریں تو عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بجلی کے بل 50 فیصدی تک کم کردئے گئے تھے۔ حالانکہ اروند کیجریوال کے استعفے کے بعد بجلی کے بلوں پر ملنے والی سبسڈی کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ حالانکہ مرکز نے اب 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دینا شروع کردی ہے لیکن پانی کی سپلائی کے محاذ پر دہلی ہر روز 172 ایم جی ڈی پانی کی قلت سے دور چار ہے۔ دوارکا جیسے علاقوں میں یہ مسئلہ بہت ہی مشکل بنا ہوا ہے جہاں لوگوں کو پرائیویٹ ٹینکروں سے پانی خرید کر کام چلانا پڑ رہا ہے۔2013ء میں دلی میں جرائم گراف 99فیصد تک بڑھ گیا ہے جبکہ صرف 30 فیصدی تک معاملے ہی حل ہوپائے۔ 2014ء میں یہاں آبروریزی کے دو ہزار سے زیادہ معاملے درج ہوئے ہیں جو 2013ء کے مقابلے 30 فیصدی زیادہ ہیں۔ ہر طرح کے جرائم بڑھے ہیں۔ حالانکہ شاید ہی دہلی چناؤ پر اس کا اثر پڑے لیکن بی جے پی کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے میں ہوئے چھاؤنی نگرپالیکا چناؤ میں زبردست ہار ایک اشارہ ضرور مانا جائے گا ۔ وارانسی میں سبھی بی جے پی حمایتی امیدوار ہار گئے ہیں اس کے علاوہ آگرہ میں بھی بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا ہے جہاں پارٹی کے چناؤ نشان پر چناؤ لڑا گیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہلی کی عوام کو کھلے طور پر ووٹنگ کرنی چاہئے جس پارٹی کو بھی چاہیں وہ مکمل اکثریت دیں۔دہلی میں پھر معلق اسمبلی نہیں ہونی چاہئے۔ 1993ء سے ریاست کا درجہ ملنے کے بعد یہاں ہمیشہ ہی مکمل اکثریت والی ایک مضبوط حکومت رہی ہے اس نے ہر بار اپنی پانچ سال کی میعاد پوری کی ہے۔ صرف پچھلے اسمبلی چناؤ میں دہلی میں سہ رخی مقابلہ دیکھنے کو ملا ہے اور نتیجوں میں ایک معلق اسمبلی سامنے آئی۔ اس کا مضر نتیجہ جنتا کو سہنا پڑا۔ امید کرتے ہیں کہ 7 فروری کو ہونے والے چناؤ میں دہلی کے شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور ایک پارٹی کو واضح اکثریت دلائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!