اس طرح سے دلدل میں پھنسی کانگریس باہر نہیں نکل سکتی!

عام چناؤ میں کراری ہار کے بعد کانگریس ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں اپنے اچھے دنوں کی امید کررہی تھی لیکن اس کے بعد دیگر اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا اور ایک ایک کرکے ساری ریاستیں کانگریس کے سارے قلعہ مسمار ہوگئے ووٹ فیصد بھی گھٹا اور سیٹیں بھی۔ اس شرمناک کارکردگی کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ کانگریس لیڈر شپ اس مسئلے پر سنجیدہ ہوگی اور ان اشوز پر سنجیدگی سے محاسبہ کرے گی جس کی وجہ سے اتنی پرانی پارٹی عرش سے فرش پر آگئی ہے۔ منگلوار کو پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ پارٹی ہیڈ کوارٹر میں قریب پونے چار گھنٹے تک چلی جس میں زبردست تبادلہ خیالات ہوئے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات نکلا۔ پارٹی کے گرتے گراف کو دیکھتے ہوئے قومی چیئرپرسن محترمہ سونیا گاندھی کو خود پارٹی کی اتری ہوئی گاڑی کو پھرسے سنبھالنے کی کوشش سے جڑنا پڑا۔ مگر کانگریس لیڈر شپ بنیادی سوال پر ابھی توجہ نہیں دے رہی ہے وہ ہے پارٹی کے پالیسی ساز فیصلوں میں عوامی رائے عامہ۔ آزادی کے قریب سات دہائی بعد بھی فیصلے اوپر سے ہی تھونپے جاتے ہیں چاہے پردیش پردھان کی تقرری کا معاملہ ہو یا ضلع پردھان کا فیصلہ اعلی سطح سے ہی ہوتا ہے۔ سبھی تنظیمی فیصلوں پر اختیار گاندھی خاندان یا اس کے کسی قریبی شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ٹکٹ بٹوارے سے لیکر وزارتوں تک کا بٹوارہ گاندھی پریوار کرتا ہے۔ نچلی یونٹوں یہاں تک کہ پردیش یونٹ تک کو کئی بار کچھ خبر نہیں ہوتی اور فیصلہ لے لیا جاتا ہے۔ کانگریس میں چاپلوسوں کا راج قائم ہوچکا ہے۔ باضمیر زمینی لیڈروں اور ورکروں کی کوئی بات نہیں سنی جاتی۔ وزیر اعظم نریندر مودی ، امت شاہ کے وجے رتھ کے سامنے سست پڑی کانگریس کو آکسیجن دینے کے لئے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے امید کی جارہی تھی لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مودی سرکار کے خلاف اور اپنی مضبوطی کیلئے کانگریس کی سپریم باڈی سی ڈبلیوسی میں کوئی کارگر حکمت عملی نہیں بن سکی اور لمبی چوڑی میٹنگ بغیر کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے ختم ہوگئی۔ مرکز کی مودی سرکار کے خلاف جارحانہ مہم چلانے اور پھر پارٹی کو پھر سے نئی طاقت کے ساتھ کھڑا کرنے کی تجویز ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کے سامنے آئی۔ اس پر اتنے تضاد سامنے آئے کہ میٹنگ بغیر کسی تجویز کو پاس کئے ختم کرنی پڑی۔ پارٹی کی مضبوطی اور ووٹ بینک بڑھانے کیلئے ایک تجویز آئی تھی کہ تنظیم کی ممبر شپ بڑھانے کے لئے دوسری پارٹیوں کی طرز پر کانگریس کو بھی آن لائن ممبر شپ فارم منگوانے چاہئیں لیکن اس کے مضر اثرات ہونے کے دوسرے نیتاؤں کی اتنی دلیلیں آئیں کے اسی بھی زیر غور فہرست میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح جب آراضی تحویل قانون میں تبدیلی کو لیکر احتجاج کرنے کی بات آئی تو کچھ ممبران کا کہنا تھا اس پر زیادہ جارحانہ رویہ دکھانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کچھ کسان ایسے بھی ہیں جو چار گنا معاوضے کے بدلے خوشی خوشی اپنی زمین سرکار کو دینے کو راضی ہیں۔ اس کے بدلے زیادہ تر ممبر کسانوں کی پیداوار کا صحیح دام دلوانے، بیج کھاد وغیرہ کے مسئلے کو ڈھنگ سے اٹھانے کے حق میں دکھائی دئے۔ یہاں تک کہ راہل گاندھی کو کانگریس کی باگ ڈور سونپنے کی مانگ میٹنگ میں اس لئے نہیں اٹھی کیونکہ کافی ممبر اس کے خلاف آواز اٹھا سکتے تھے۔ کل ملا کر میٹنگ لیپا پوتی کرکے ہی ختم ہوگئی۔اس طرح تو دلدل میں پھنسی کانگریس باہر نہیں نکل سکتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟