قلم سے ڈرنے والے ان جہادیوں کی بربریت آمیز و قابل مذمت حرکت!

اسلام کا لفظی مطلب ہے ’امن‘ لیکن اس سرزمیں پر سب سے زیادہ خون خرابہ اسلام کے نام پر اس کے کٹر پسندوں کے ذریعے کیا گیا۔ اسلام کے خود ساختہ جہادیوں نے ایک بار پھر پیغمبرؐ کی توہین کا بدلہ لینے کیلئے فرانس کی راجدھانی پیرس میں 10 نہتے صحافیوں کو موت کی نیند سلادیا۔ ابھی دنیا پاکستان کے پیشاور آرمی اسکول کے بچوں کے قتل عام کے واقعے کو نہیں بھول سکی تھی کہ پیرس میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوگیا۔ فرانس میں اب تک کے سب سے بڑے آتنکی حملے میں دہشت گردوں نے چارلی ایبدو میگزین کے دفتر پر فائرننگ کی جس میں جریدے کے مدیر سمیت 10 صحافی اور دو پولیس والے مارے گئے۔ پہلی بار کسی ایک وادات میں اتنے صحافی ہلاک ہوئے۔ حملے میں 20 لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ’’چارلی ایبدو‘‘ ایک ہفت روزہ جریدہ ہے۔ یہ طنز اور کارٹون کے لئے مشہور ہے۔ سال2006ء میں اس میں پیغمبر ؐ کا کارٹون شائع ہوا تھا اس کے بعد سے ہی میگزین کے مدیر کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ فرانس کی مسلم تنظیموں نے اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا تھا لیکن وہ ہار گئے تھے۔ عدالت نے اظہار آزادی کے نام پر میگزین کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا۔ اسی ہفتے میگزین نے دہشت گرد تنظیم آئی ایس کے چیف البغدادی کا بھی کارٹون شائع کیا تھا۔ چارلی ایبدو اپنے قیام سے ہی تنازعات میں رہی ہے۔ میگزین میں شائع کارٹون رپورٹ اور چٹکولوں کو لیکر کئی بار مظاہرے بھی ہوئے اور تشدد آمیز واقعات بھی ہوئے۔ یہاں تک کہ میگزین کے مدیر اسٹفن کاربن چیئرکو جان سے مارنے تک کی دھمکی دی گئی تھی لیکن ان سب سے بے پرواہ میگزین ’چارلی ایبدو‘ اپنی پالیسی کے مطابق مختلف اشوز پر کارٹون اور رپورٹ شائع کرتی رہی۔ چارلی ایبدو کے 47 سالہ مدیر کاربن چیئر شاندار کارٹونسٹ ٹو تھے ہیں بلکہ اکسانے والے اشو اٹھانے کے بھی ماہر تھے۔انہوں نے ایک میگزین ’لامونڈ ‘ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ حملے سے نہیں ڈرتے۔ یہ بھلے ہی بڑھا چڑھا کر کرنے والا دعوی لگتا ہو لیکن انہوں نے کہا میں جھکنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔ سال2011ء میں میگزین کے دفتر پر پیٹرول بم حملے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ یہ فرانس کے مسلمانوں کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کچھ بیوقوفوں کا کام ہے۔ ان کے بیان کے بعد القاعدہ نے انہیں زندہ یا مردہ پکڑنے کا فتوی جاری کیا تھا۔ چارلی ایبدو میگزین پر حملہ کرنے والے دو بھائیوں نے پوری کارروائی کا بڑی باریکی سے پلان بنایا تھا۔ ان کے نشانے پر میگزین کے مدیر سمیت4 نامور کارٹونسٹ تھے۔ انہوں نے باقاعدہ ان کارٹونسٹوں کے قتل سے پہلے ان کا نام پوچھ کر ان کی تسلی کی۔ ان کارٹونسٹوں کا نام پیغمبر ؐمحمد کے کارٹون تنازعے سے وابستہ تھا۔ فرانس میڈیا میں آئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے جب بندوقچی فائرننگ کرتے ہوئے میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیگر اسٹاف سے چارلی ایبدو کے مدیر اسٹفن کابن چیئر عرف شارب ، جارج بولئے وغیرہ کا نام پوچھا جہاں پر ایڈیٹوریل کی میٹنگ ہورہی تھی وہاں بھی بندوقچیوں نے باقاعدہ نام سے ان کارٹونسٹوں کے بارے میں پوچھا اور پھر گولی ماری۔ غور طلب ہے کہ ان کارٹونسٹوں کوقتل کرنے سے پہلے ہی القاعدہ نے دھمکی دے رکھی تھی۔القاعدہ کا الزام ہے کہ یہ کارٹونسٹ اسلام اور پیغمبر کا مذاق اڑاتے ہیں اس قتل عام سے پوری دنیا حیرت میں ہے۔ وہیں کچھ سال پہلے کارٹونسٹ کا سر قلم کرنے والے کو51 کروڑ روپے کا انعام دینے سے سرخیاں بٹورنے والے اترپردیش کے سابق وزیر یعقوب قریشی نے بدھ کے روز ایک اور متنازعہ بیان دے دیا۔
کچھ سال پہلے ڈینمارک کے ایک اخبار میں پیغمبر محمدؐ کا اعتراض آمیز کارٹون چھاپنے سے مسلم فرقے میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی تھی۔ اب قریشی نے کہا متنازعہ کارٹون بنانے والا تو مرچکا ہے لیکن پیرس کی میگزین میں پیغمبرؐ کا اعتراض آمیز بنانے والے کارنوٹسٹ کے قاتل کو 51 کروڑ کا انعام دینے کو تیار ہیں۔ویسے اپنا خیال ہے کسی بھی مذہب یا اس کے بھگوان کا مذاق نہیں اڑایا جانا چاہئے۔ شخصی آزادی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ کسی دوسرے مذہب کا مذاق اڑائیں۔ بلا شبہ میگزین کی غلطی تھی اور اس کے عمل کو اس کے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ آج کے اس دور میں دماغی جارحیت کا جواب گولی سے دینا کہیں بھی جائز نہیں ہے۔ کمیونی کیشن کے اس دور میں اس اخبار کی حرکتوں کے خلاف ایک رائے عامہ کھڑی کی جاسکتی تھی اس کے صحافیوں کا بائیکاٹ اور دوسرے مذہبوں کی عزت نہ کرنے والا قرار دیا جاسکتا تھا۔ بہت سے ایسے راستے تھے لیکن نہتے لوگوں پر اچانک گولیوں کی بوچھار کرنا ایک بزدلانہ حرکت ہے۔ آخر ان حملوں کے پیچھے کون ہے ان کے ارادے کیا ہیں؟ حملے میں پہلے القاعدہ کا نام سامنے آیا آئی ایس کٹر پسندی اور دہشت کا نیا نام ہے جس نے شام اور عراق میں اپنی یکساں حکومت قائم کرلی ہے۔ اس حملے کے بعد ایران سے آیا رد عمل تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ وہاں کے میڈیا کا ایک طبقہ مانتا ہے کہ یہ حملہ فرانس کے ذریعے شام میں ایک مضبوط اپوزیشن کا ساتھ دینے اور آئی ایس کے خلاف بین الاقوامی اتحادی فوج کے ذریعے کئے گئے ہوائی حملوں کے احتجاج میں کیا گیا ہے۔ 
مذہبی کٹر پسندی کو آتنکی منصوبوں سے جوڑنے کے اس خطرناک کھیل کی مخالفت ہونی چاہئے۔ دراصل آزاد خیالی سے نہ لڑسکنے والے لوگ ہی کٹر پسندی اور تشدد کا سہارا لیتے ہیں جس کی مخالفت ہونی چاہئے۔ اگر یہ احتجاج کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ تشدد کی ذہنیت کے تئیں ہے اس لئے بات یہ ہے کہ بنیادی تقاضوں میں اصلاح کی ضرورت ہے اور اپنے علیحدہ سے مذہبی روایات اور بھروسوں کو برداشت کرنے اور ان کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مغرب اور اسلامی دنیا یہ نہیں سیکھتی تب تک ایسے واقعات کو روکناناممکن ہے۔ صحافی ساتھیوں کی موت سے غمزدہ چارلی ایبدو کے صحافی اور کئی کارٹونسٹ میگزین کا نیا شمارہ لا رہے ہیں۔ حقیقت میں اظہار آزادی پر ہوئے حملے کی پرزور مخالفت کی جانی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!