تبدیلی مذہب نے بی جے پی کو دھرم سنکٹ میں ڈالا!

آگرہ میں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر جو کچھ ہوا اس نے طول تو پکڑا ہی تھا خاص کر اس لئے کہ جو مسلم مبینہ طور پر ہندو دھرم میں لوٹے وہ ہی سوال کھڑے کررہے ہیں۔سنسد سے لیکر سڑک تک اسے لیکر سوال اٹھ رہے ہیں۔ راجیہ سبھا میں اس بات پر اتنا ہنگامہ ہوا کہ مرکزی سرکار نے اس سے دامن جھاڑتے ہوئے کہا کہ یہ راجیہ سرکار کا معاملہ ہے۔ غور طلب ہے کہ آگرہ میں سوموار کو ’’گھرواپسی‘‘ کے نام پر قریب 60 مسلم پریواروں کا تبدیلی مذہب کرایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’گھر واپسی‘‘ کا یہ انعقاد جلدبازی میں اور دکھاوے کے لئے کیا گیا۔ آر ایس ایس اور بجرنگ دل نے دعوی کیا کہ یہ اپنی مرضی سے ہندوبنے ہیں لیکن اگلے ہی دن میڈیا میں ان پریواروں کے کچھ ممبرا ن نے کہا کہ تبدیلی مذہب کا یہ ناٹک انہیں طرح طرح کے لالچ دیکر کرایا گیا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ انہیں ادھار کارڈ اور پلاٹ جیسی سہولیات دستیاب کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جو بھی ہو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو زور زبردستی سے اسلام قبول کرایاگیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی تمام مسلم یہ قبول کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد ہندو تھے لیکن ان کی’’ گھر واپسی‘‘ کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ غریبوں کی خدمت کے نام پر سرگرم عیسائی مشنریوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر عیسائی بنایا۔ یہ کام تو ابھی بھی نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں چل رہا ہے۔ان حقائق کے باوجود ہندو تنظیمیں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر ایسا کچھ کریں جس سے تنازع پیدا ہو، صحیح نہیں مانا جاسکتا۔ عبادت کا طریقہ ایک شخصی معاملہ ہے جہاں نہ تو زور زبردستی چلنی چاہئے اور نہ ہی لالچ وغیرہ۔اس سے بھاجپا کو فائدہ نہیں ہونے والا ہے الٹا نقصان ہی ہوگا۔ وکاس کے نعرے پر اپنی پہچان بنانے میں جٹی بی جے پی کو تبدیلی مذہب کے معاملے میں زیادہ فائدہ نہیں ہونے والا۔ پارٹی کو لگ رہا ہے کہ اس سے اسکا ایجنڈا پٹری سے اتر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی کوشش ہے کہ یہ معاملہ جلد نپٹنا چاہئے۔ تبدیلی مذہب کا ایک ایسا ہی پروگرام 25 دسمبر کو علیگڑھ میں منعقدہ کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وہاں کئی عیسائی خاندان اپنی مرضی سے ہندو دھرم اپنائیں گے۔تبدیلی مذہب بیحد حساس معاملہ ہے ہمارے دیش میں کسی بھی شخص کو کوئی بھی دھرم اپنانے کی آزادی آئین سے ملی ہوئی ہے۔ کوئی چاہے تو وہ اپنا دھرم بدل سکتا ہے لیکن اس کے لئے کچھ قانونی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ دھرم بدلنے سے پہلے اس بات کی اطلاع باقاعدہ انتظامیہ کو دینی ہوتی ہے۔ دباؤ کا لالچ دیکر تبدیلی مذہب قانون کے خلاف ہے۔اترپردیش میں چونکہ چناؤ ہونے والے ہیں ایسے میں راجیہ کی کچھ مخالف پارٹیوں کو لگتا ہے کہ انہیں سیاسی طور پر اس سے فائدہ ہوگا۔ ہمارا تو بس اتنا کہنا ہے کہ جو کچھ ہو وہ دیش کے قانون کے تحت ہی ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!