افسوس نربھیا کانڈ سے کوئی سبق نہیں لیا!

یہ دوسری نربھیا ہے جس کی جان بچ گئی ۔ ورنہ16 دسمبر 2012ء کی اس خوفناک رات کی طرح اس نربھیا کے ساتھ بھی رونگٹے کھڑے کردینے والی حیوانیت کا مظاہرہ ہوسکتا تھا۔دل دہلادینے والا یہ واقعہ سامنے آیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق گوڑ گاؤں کی فائننس کمپنی میں ملازم یہ لڑکی ذرا سی ہوشیاری سے بچ گئی۔ یہ انکشاف جانچ کے دوران سامنے آیا ہے۔ کیب میں آبروریزی کی واردات کو انجام دینے سے پہلے ملزم شیو کمار یادو نے لڑکی کو اس قدر پیٹا تھا کہ اس کا منہ سوجھ گیا۔ملزم نے16 دسمبر2012ء کی اس رات نربھیا جیسا حال بنانے کی لڑکی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے جسم میں لوہے کا سریا ڈال دے گا۔ ملزم شیو کمار نے لڑکی کو قتل کرنے کی دھمکی دی لیکن لڑکی نے ہوشیاری دکھائی اور اس وقت وہ چنگل سے بچنے کیلئے روتے بلکتے ہوئے جیسے تیسے جھانسہ دیکر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ واقعہ بتاتا ہے کہ دو برس پہلے چلتی بس میں نربھیا کے ساتھ ہوئے ذیادتی کے بعد بنے سخت قانون کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس شرمناک واقعہ کے بعد بیشک پولیس نے 48 گھنٹوں کے اندر ہی ملزم کو پکڑ لیا، مگر اصلی اشو تو عورتوں کی سلامتی کا ہے جسے لیکر پولیس اور انتظامیہ و ہمارا سماج ناکام رہا ہے۔ دہلی میں عورتوں کے خلاف جرائم میں الٹے اضافہ ہورہا ہے۔ دہلی پولیس روز ایسے 40 مقدمات درج کرتی ہے۔ پولیس اسٹیشنوں میں ہر دن کم سے کم 4 معاملے آبروریزی کے آ رہے ہیں جبکہ چھیڑ چھاڑ ، جنسی ہراسانی، گھریلو مارپیٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق اس سال15 نومبر تک عورتوں کے خلاف جرائم کے اب تک 1323 معاملے درج ہوئے جبکہ اسی دوران پچھلے سال یہ تعداد11479 تھی۔ 
مرکزی وزیر مملکت داخلہ ہری بھائی چودھری نے راجیہ سبھا میں اٹھے ایک سوال کے جواب میں ان اعدادو شمار کو رکھا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دہلی کو ریپ کیپٹل کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ جب بھی ہوئی خوفناک واقعہ رونما ہوتا ہے خاص کر آبروریزی ، تو عام لوگ ہی نہیں ذمہ دار بلکہ سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگ بھی لاپروائی کے انداز میں آجاتے ہیں۔نربھیا گینگ ریپ کانڈ میں جو غصہ آبروریزوں کے خلاف نظر آیا تھا ویسا ہی غصہ آج ملزم کیب ڈرائیور اور کیب کمپنی اوبر کے خلاف دکھائی پڑرہا ہے۔ لیکن کم ہی لوگوں کی توجہ اس طرف گئی ہے۔ دو سال کی اس میعاد میں سڑکوں کو لڑکیوں کے لئے محفوظ بنانے کے نقطہ نظر سے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جاسکا۔ پولیس اور انتظامیہ مشینری کا نظریہ الٹا بگڑا ہوا دکھائی پڑتا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کئی ملکوں میں اپنی خدمات دینے والی اوبر کمپنی کی جس ٹیکسی میں جو بربریت دکھائی گئی اس میں جی پی ایس سسٹم تو چھوڑیئے اس کے پاس دہلی میں ٹیکسی چلانے کا پرمٹ تک نہیں تھا۔ اس لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر بدفعلی کرنے والا شیو کمار اس سے پہلے بھی اپنی ٹیکسی میں بدفعلی کے معاملے میں جیل کی ہوا کھا چکا ہے اس کے باوجود کمپنی نے اسے پھر رکھ لیا؟ بیشک محکمہ ٹرانسپورٹ نے اوبر کی ٹیکسیوں پر دہلی میں روک لگادی ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اب تک نیشنل پرمٹ کے نام سے کاروبار کرتی ہے۔ پچھلے ایک دہائی میں راجدھانی میں چلتی گاڑی میں بدفعلی کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن میں 2010ء کا ڈھولاکنواں معاملہ بھی ہے جس میں اسی برس اکتوبر میں پانچ لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے۔ اس واردات کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بدفعلی کے معاملے میں سزائے موت جیسا سخت قانون بھی عورتوں کو محفوظ نہیں بنا سکا۔لیکن صرف پولیس انتظامیہ کو الزام دینے سے سخت سے سخت قانون بنانے سے معاملہ حل ہونے والا نہیں۔ جب تک سماج اسے روکنے کے لئے آگے نہیں آتا ایسے معاملات ہوتے رہیں گے۔ کچھ ٹھوس کرنا ہوگا کیونکہ اکیلے دہلی میں ہی نہیں بلکہ تمام میٹرو شہروں میں عورتیں نوکری کے لئے راتوں میں اکیلے سفر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ نربھیا کانڈ سے بھی دہلی میں حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟