پہلے مرحلے کی پولنگ طے کرے گی یوپی کی سمت



Published On 5th February 2012
انل نریندر
اترپردیش میں 16 اسمبلی چناؤ کیلئے پہلے مرحلے میں 55 سیٹوں کے لئے 8 فروری کو پولنگ ہوگی۔ پہلے مرحلے کے لئے سبھی سیاسی پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ سبھی پارٹیاں اپنے کو ایک دوسرے سے بہتر بتانے میں لگی ہوئی ہیں لیکن اگر پچھلے پانچ انتخابات کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو سرکار بنانے کے لئے کم سے کم30 فیصدی ووٹوں کا نمبر پار کرنا ضروری ہوگا۔ بہرحال یوپی اسمبلی چناؤ کی جنگ اپنے شباب پر پہنتی جارہی ہے۔ گنگا جمنا، گھاگرا، رابتی اور گومتی کے پانی کے اثر کی طرح سیاست میں بھی مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔ سیاست آگے کیا گل کھلائے گی اور کس کا پلڑا بھاری ہوگا یہ تو ووٹر ہی طے کریں گے۔ حکمراں بسپا اپوزیشن پارٹی سپا کے علاوہ کانگریس بھاجپا ، پیس پارٹی، راشٹریہ لوک دل سبھی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ حکمراں بسپا جہاں اپنی سرکار کے کام کے دم پر اور ذات پات کے تجزیئے کی بنیاد پر واپسی کا دعوی کررہی ہے وہیں سماج وادی پارٹی کو بھروسہ ہے کہ صوبے میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے بسپا سرکار کی مبینہ ناکامیوں کے سبب چل رہی تبدیلی اقتدار کی ہوا کا اسے فائدہ ہوگا اور اس کے پیش نظر ووٹروں کی پہلی ترجیح سپا ہوگی۔ کانگریس کو امید ہے کہ 22 سال تک غیر کانگریسی سرکاریں دیکھ چکی جنتا یووراج راہل گاندھی کے کرشمے پر بھروسہ کر کے اس بار اسے ترجیح دینے والی ہے جبکہ بھاجپا کرپشن کے خلاف گاندھی وادی سماجی رضاکار انا ہزارے کی تحریک کو ملی عوامی حمایت کو اپنے حق میں مان کر زیادہ امید افزا ہے۔ جس طرح سے اقلیتوں کو ریزرویشن کے معاملے میں سبھی پارٹیوں کی کرکری ہوئی ہے اس سے بھی بھاجپا کو لگتا ہے کہ ہندو ووٹ خاص کر سورن جاتیوں کا ووٹ ان کے حصے میں آئے گا۔ اترپردیش میں اسمبلی کی کل 403 سیٹیں ہیں۔ پردیش میں سال1991 سے لیکر 2000 تک ہوئے اسمبلی کے پانچ انتخابات پر نظر ڈالیں تو نمبر ایک پارٹی بننے اور اکثریت پانے اور اس کے قریب پہنچنے کے لئے کم سے کم 30 فیصدی ووٹ کا نمبر پار کرنا ضروری ہے۔ اترپردیش کے یہ چناؤ کئی معنوں میں تاریخی ہونے جارہے ہیں۔ دیش کی سب سے بڑی ریاست میں اس بار ریکارڈ تعداد میں چھوٹی موٹی پارٹیاں بڑے دم خم کے ساتھ اتری ہیں۔ بسپا، سپا ، کانگریس اور بھاجپا کو ان سے نقصان ہونے کا امکان ہے۔ وہ انہیں صرف ووٹ کرنے والی یا ووٹ برباد کرنے والی پارٹیاں بتا رہی ہیں۔جیسے پیس پارٹی کے بارے میں بھاجپا کو چھوڑ کر تین باقی پارٹیوں کو یہ ہی لگ رہا ہے جس سے بھاجپا کو فائدہ ہونے والا ہے اس کے بارے میں باقی پارٹیاں کہہ رہی ہیں کے پیس پارٹی کو مدد تو بھاجپا سے ہی ملتی ہے۔ ریاست میں پیس پارٹی کا اس وقت وہی درجہ ہے جو اپنی ابتدائی پوزیشن میں بی ایس پی کا ہوا کرتا تھا۔ اس بار ریاست میں 150 کے قریب پارٹیاں چناؤ لڑنے کی تیاری میں ہیں جو الگ الگ ذات گروپوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔پچھلی بار قریب سوا سو پارٹیاں چناؤ لڑی تھیں جس میں چھ پارٹیاں 12 ریاستی سطح کی پارٹیاں اور 112 غیر تسلیم شدہ پارٹیاں تھیں۔ اترپردیش میں حد بندی کے بعد 113 سیٹوں پر مسلم ووٹ فیصلہ کن ہوسکتے ہیں جنہیں پانے کے لئے سیاسی پارٹیوں نے دن رات ایک کردیا ہے۔ مسلم ووٹ پانے کیلئے بھاجپا کو چھوڑ کر سبھی سیاسی پارٹیاں زور آزمائی میں لگی ہیں لیکن ابھی بھی کوئی پارٹی دعوے سے کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسے مسلم ووٹ ایک طرفہ ملے گا۔ عام طور پر مانا جارہا ہے کہ مسلمان ایک رو میں ووٹ دے سکتے ہیں یعنی بھاجپا کو ہرانے کے لئے اس سیٹ پر جو بھی امید وار جیتتا دکھائی دے گا وہ اسے ووٹ دیں گے۔ اس طرح ہمیں لگتا ہے کہ مسلم ووٹ کانگریس، سپا، بسپا، پیس پارٹی میں بٹے گا۔ ہار جیت کا فرق بہت کم ہوگا جو امیدوار 10 ہزار ووٹ لے گا وہ جیتنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Daily Pratap, Mulayam Singh Yadav, Muslim, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟