پہلے مرحلے کی پولنگ سے کانگریس اور سپا میں زیادہ جوش

اترپردیش میں اسمبلی چناؤ کا پہلا دور پورا ہوگیا ہے۔بارش کے باوجود بدھوار کے روز ووٹوں کی بھی برسات ہوئی۔ اسمبلی چناؤ کے پہلے مرحلے میں پولنگ کے دوران بارش اور سرد ہوائیں بھی ووٹروں کا جوش ٹھنڈا نہیں کرسکیں۔ اسے ووٹروں کی بیداری کہیں یا انا ہزارے و چناؤ کمیشن کی مہم کا نتیجہ۔ آزادی کے بعد ریاست میں پہلی بار 62 فیصدی پولنگ ہوئی ہے۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ پولنگ پوری طرح پرامن رہی نہیں تو یوپی چناوی تشدد کے لئے مشہور ہے لیکن پہلے فیس میں کہیں سے بھی تشدد تو دور چھوٹے موٹے جھگڑوں کی بھی شکایت نہیں ملی۔ بھاری پولنگ کو سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ڈھنگ سے لے رہی ہیں اور اپنے انداز سے مطلب نکال رہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ مانی جارہی ہے کہ ساری پولنگ کبھی بھی حکمراں پارٹی کو نہیں بھاتی مانا یہ ہی جاتا ہے کہ ووٹر اقتدار کے تئیں ناراضگی جتانے کیلئے ہمیشہ جذبہ دکھاتا ہے۔اس بار کے چناؤ میں سب سے بڑی پہیلی یہ ہے کہ اترپردیش کے قریب 46 فیصدی نوجوان ووٹر (18 سے39 برس) سے تقریباً55 لاکھ ووٹر 18 برس کے ہیں ۔ ایک کروڑ سے اوپر ایسے ووٹر ہیں جو پہلی بار اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ اہم اشو یہ بھی ہے کہ نوجوان طبقے کا یہ ووٹ کیا کرشمہ دکھائے گا؟ اس طبقے کو سیاست میں کم دلچسپ ہی بلکہ اپنے کیریئر اور مستقبل ، نوکری وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔ نوجوان طبقہ چاہے شہری علاقے کا ہو یا دیہی علاقے کا وہ اپنے مستقبل کو لیکر کہیں زیادہ بے چین رہتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سیاست میں جھاڑو لگاکر کچھ صفائی کا کام کرسکتا ہے۔ کرپشن یا سیاست کے جرائمی ٹرینڈ کو قبول کرنے کے بجائے اس کو ختم کرنے میں دلچسپی دکھاتا ہے۔ اسی طبقے میں ریاست کی خوشحالی اور سرکار کے استحکام اور روز گار کے نئے مواقع جیسے اشو کو ترجیح دے کر تبدیلی لانے کی اہلیت ہے۔ اس لئے شاید ہر بڑی سیاسی پارٹی نے چاہے روزگار ہو یا مفت لیپ ٹاپ جیسے لالچ نوجوانوں کے سامنے رکھے ہیں۔ اس نئے طبقے کے ووٹروں کی وجہ سے اگر راہل گاندھی کانگریس کو تقویت دے رہے ہیں تو اکھلیش یادو سپا کے ترپ کے پتے بن گئے ہیں۔ بسپا اور بھاجپا میں اس طبقے کے طاقتور لیڈروں کی کمی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اترپردیش میں چناؤ کا آخری سیاسی نتیجہ جو بھی ہو پہلے مرحلے کی پولنگ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ عام طور پر مایوس رہنے والے ووٹروں کا زمانہ گیا۔ ان امیدواروں کے لئے بھی امید کی کرن مدھم ہوگئی ہے جو محض 20-20 فیصدی ووٹ لیکر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ امید یہ جتائی جارہی ہے کہ باقی کے چھ مرحلوں میں60فیصدی کو بھی پار کرسکتا ہے۔ بہرحال ریاست کی 55 سیٹوں پر پر امن پولنگ کے باوجود چیلنج کم نہیں ہوئے ہیں۔ اترپردیش میں اب تک جن 15 لاکھ سے زیادہ مشتبہ افراد کو پکڑا گیا ہے ان میں سے دو لاکھ سے زیادہ ان سیٹوں والے حلقوں کے ہیں۔ پوری ریاست میں اب تک 33 کروڑ نقدی کے ساتھ ساتھ 4345 غیر قانونی ہتھیار،6636 کارتوس اور 243415 لیٹر غیر قانونی شراب ضبط کی گئی ہے۔
بدھ کے روز ہوئے پہلے مرحلے کے چناؤ کے دوران کانگریس۔ سپا اوربسپا جیسی پارٹیوں کی سانسیں اٹکی رہیں۔ دوپہر سے پہلے بیحد دھیمی پولنگ رہی جس سے کانگریس کافی تشویش میں پڑ گئی لیکن شام کو آئی اچانک تیزی نے پارٹی میں نیا جوش بھردیا۔پہلے مرحلے کی پولنگ میں جن سیٹوں پر ووٹ پڑے ان میں کانگریس کو اچھی خاصی امید ہے۔ان 10 ضلعوں میں اسمبلی کی 55 سیٹیں آتی ہیں جن میں سے کانگریس کو 10سے15 سیٹیں ملنے کی امید ہے۔ اس علاقے میں پارٹی کو دیگر پسماندہ طبقے اور مسلمان ووٹروں سے کافی امید ہے وہ کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ کو کانگریس اس لئے بھی اہم مان رہی ہے کیونکہ اس سے صوبے کا ٹرینڈ پتہ چلے گا۔ اس مرحلے میں کانگریس کی طرف سے ووٹروں کا رجحان بھی دکھائی دیا تو یہ باقی مرحلوں میں بھی اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی کرم کانڈی ٹوٹکے جیسی وجہ ہی لگتی ہے۔ جن 10 ضلعوں میں 55 سیٹوں کے لئے پولنگ ہوئی ان علاقوں میں 2007 کے اسمبلی چناؤ اور 2009 کے لوک سبھا چناؤ کے نتیجوں کا تجزیہ اس کی ایک وجہ ہے۔ اس علاقے میں مسلم، دلت اور انتہائی پسماندہ طبقات کے ووٹ زیادہ ہیں جن پر کانگریس نے پورے چناؤ کے دوران زور دیا ہے۔ کانگریس پولنگ سے ٹھیک پہلے یہ صاف اشارہ دینے میں لگی ہے کہ پارٹی اس بار اپنے دم پر ہی سرکار بنا لے گی۔ راہل گاندھی نے کئی جلسوں میں اور سونیا گاندھی نے اوناؤ میں اپنی آخری چناؤ ریلی میں کہا کانگریس کسی کے ساتھ تال میل نہیں کرے گی۔ اس سے صاف اشارہ دینا تھا کہ کانگریس سرکار بنانے کے لئے کافی مطمئن ہے۔ اس کے پیچھے ان موقعہ پرست ووٹروں کو بھی پٹانا تھا جو آخر تک دیکھتے رہتے ہیں کہ سرکار کس کی بنے گی۔ اگر کانگریس بہت حوصلہ افزا ہے تو جوش سماج وادی پارٹی میں بھی انتہا پر ہے۔ سپا کا دعوی ہے کہ اگلی سرکار اس کی ہی بنے گی۔ اکثریت میں کمی رہی تو اس کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ پارٹی کا دعوی ہے اکھلیش یادو کی چناؤ ریلیوں میں جس قدر بھیڑ اکھٹی ہورہی ہے اس سے مستقبل کے اشارے صاف دکھائی پڑ رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو پارٹی سے الگ رکھنے کے اکھلیش یادو کے فیصلے سے تمام ان طبقوں میں بھی پارٹی سے قربت بڑھی ہے جو سپا سے ماضی میں دور رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اس بار بہوجن سماج پارٹی کے تمام قلعے ڈھہ جائیں گے۔کہنا ہوگا کہ یہ چناؤ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہوگا کے سبھی پارٹیوں نے اپنے روایتی ووٹ بینک کے علاوہ دوسروں پر خاص توجہ دی ہے۔ ان ووٹروں میں برہمن، راجپوت جیسی بڑی قومیں ، یادوں کو چھوڑ کر دوسرے پسماندہ طبقات وغیرہ وغیرہ ، مسلم ووٹ شامل ہیں۔ اور ان سبھی کے درمیان زبردست غور وخوض چل رہا ہے۔ کانگریس اور سپا کی طرف سے دلت قومیں بھی جاٹوں بنام غیر جاٹوں کی بنیاد پر اس منتھن کی کوشش ہوئی ہے۔ راہل گاندھی کا دلت خاندانوں کے بیچ جا کر اٹھنا بیٹھنا اسی نظریئے سے دیکھا جارہا ہے۔ بہرحال ان سبھی کی کوششوں کے آخری نتیجوں کو اپنے حق میں لیکر جو پارٹیاں دعوی کررہی ہیں ان میں کانگریس سب سے آگے ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے کہ کانگریس کے پاس اس چناؤ میں پانا ہی پانا ہے کھونا کچھ نہیں ہے۔ کانگریس کے تجزیہ نگار اسی بنیاد پر مان رہے ہیں کہ اس مرحلے میں پڑے ووٹوں کواس کے حق میں مان لیا جائے تو اگلے مرحلے میں بھی ووٹروں کارجحان اثر دکھا سکتا ہے۔
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Congress, Daily Pratap, Samajwadi Party, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟