جھٹکوں پر جھٹکے جھیلنے کے عادی منموہن سنگھ اور ان کی حکومت



Published On 5th February 2012
انل نریندر
منموہن سنگھ سرکار کو سپریم کورٹ سے مسلسل جھٹکے لگتے جارہے ہیں۔ سینئر عدالت کا یوپی اے II- کو یہ تیسرے جھٹکے کو ملا کر پانچواں جھٹکا ہے۔ جمعرات کا جھٹکا اس لئے زیادہ بے چین کرنے والا ہے کیونکہ سی اے جی نے 1.67 لاکھ کروڑ روپے کے ٹوجی گھوٹالے کو اجاگر کر سنسنی پھیلائی تھی۔ وزیر اعظم خود اے راجہ کے بچاؤ میں آئے تھے اور پوری سرکار پہلے سی اے جی پھر پی اے سی کے پیچھے پڑگئی تھی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی اے سرکار نے بیش قیمتی اسپیکٹرم (کرنیں)کو ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیا۔ سپریم کورٹ کا جمعرات کے روز سرکار کوتیسرا جھٹکا تھا۔ اس سے پہلے چیف ویجی لنس کمشنر پی جے تھامس کی تقرری کو سپریم کورٹ منسوخ کردیا تھا تب بھی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی تنقید ہوئی تھی کیونکہ سی وی سی سلیکشن کمیٹی میں لیڈر اپوزیشن سشما سوراج کے اعتراض کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔ یہ سیدھے طور پر وزیر اعظم کے لئے جھٹکا تھا۔ سپریم کورنے ٹو جی معاملے میں ہیں قصورواروں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے میں دیر لگانے کو غلط قراردیا تھا اور اس میعاد کو زیادہ سے زیادہ چار مہینے طے کردیا تھا۔ اس مسئلے میں بھی پی ایم کی کرکری ہوئی تھی۔ اس مرتبہ پی ایم او کٹہرے میں ہے۔ تیسرا اور تاریخی فیصلہ جمعرات کو آیاجو سب سے بڑا جھٹکا تھا۔ اس بار بھی وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر مالیات کٹہرے میں ہیں کیونکہ جب سی اے جی نے یہ معاملہ اٹھایا تھا اور میڈیا نے اسے اچھالا تو پردھان منتری نے راجہ کو ہدایت دی تھی اور بار بار انہیں بچانے کی کوشش کی تھی۔ جب بات زیادہ بڑھی تو وہ جیل بھیج دئے گئے۔ تب منموہن سنگھ نے بچاؤمیں یہ دلیل دی کہ اتحادی حکومت کے سامنے ایسی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تازہ فیصلے میں ٹو جی اسپیکٹرم کے عمل کو غلط قراردیا ہے یعنی وہ غلط اور طرفداری والا تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیر اعظم نے اس غیر قانونی اور غلط عمل کو ڈیفنس کس بنیاد پر کیا؟ کیا انہیں اخلاقی بنیاد پر اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دینا چاہئے؟ وزیر اعظم اور کتنے مخالفانہتنقیدوں کو جھیلیں گے۔ اس سے پہلے بھی جب یو پی اے I- کی حکومت تھی تب بھی سپریم کورٹ نے منموہن سرکار کو دو بار زبردست جھٹکے دئے تھے۔ ایک بار جب بہار میں این ڈی اے کی سرکار بنانے کا موقعہ نہ دیکر وہاں صدر راج لگایا تھا تب کورٹ نے گورنر کے برتاؤ کو غیر آئینی قراردیا تھا۔ دوسری مرتبہ جھارکھنڈ میں بھی یہی حالت رہی۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد شیبو سورین کو استعفیٰ دینا پڑا اور این ڈی اے کی سرکار بن گئی تھی۔ کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار کے لئے ایک ساتھ نہیں بلکہ تین مورچے کھل گئے ہیں۔ سب سے پہلے اترپردیش چناؤ، دوسرے چدمبرم کا مستقبل اور تیسرے دونوں کو بچانے میں یوپی اے محاذ کی تشویش۔ اترپردیش چناؤ سے ٹھیک پہلے 122 ٹیلی کام لائسنس منسوخ ہونے کے بعد کانگریس پوری طاقت سے اپنے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر داخلہ پی چدمبرم کا بچاؤ کررہی ہے لیکن اس کے سیاسی اثر کو لیکر اس کی جان حلق میں ضرور اٹکی ہوئی ہوگی۔ کانگریس اور سرکار دونوں نے مان لیا ہے کہ اب ان کے پاس اس مسئلے پر جارحانہ رخ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ انہیں سب پہلوؤں پر بحث کرنے کیلئے کانگریس کے بڑے نیتاؤں کی کور کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔ ذرائع کے مطابق کانگریس لیڈر شپ مان رہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے سے اپوزیشن کو چناؤ سے پہلے کرپشن کے اشو پر ایک ہتھیار تو مل گیا ہے۔ جس طرح سے کپل سبل نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ڈی ایم کے کوٹے کو ٹیلی کمیونی کیشن وزیر رہے اے ۔ راجہ پر ٹھیکرا پھوڑا ہے اور اس سے کہیں ایک اور نیا مورچہ نہ کھل جائے۔ ممتا اور شرد پوار نے پہلے ہی ناک میں دم کررکھا ہے۔ اب پورے گھوٹالے کے لئے راجہ کو اکیلے ذمہ دار ٹھہرانا پہلے سے ناراض ڈی ایم کے کو اور اکسانا ہے، کہیں پہلے سے لگی آگ اور نہ بھڑک جائے؟
2G, A Raja, Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Manmohan Singh, Supreme Court, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!