پنجاب۔ اتراکھنڈ میں37 دنوں کیلئے حکومت و انتظامیہ ٹھپ



Published On 7th February 2012
انل نریندر
بھارت کے چناؤ کمیشن نے اپنے فیصلے سے پنجاب اور اتراکھنڈ ریاستوں کے انتظامیہ کو ایک مہینے سے زیادہ وقت کے لئے پنگو بنادیا ہے۔ حالانکہ دونوں ریاستوں میں پولنگ ہوچکی ہے لیکن چناؤ ضابطہ ابھی بھی لاگو ہے۔ یہ چناؤ ضابطہ 37 دن کے لئے یعنی 6 مارچ تک چالو رہے گاجس دن ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ ایک پنجاب کے افسرکا تبصرہ تھا کہ ہم تو اپنا سارا وقت ٹی وی دیکھ کر گذار رہے ہیں، کام تو کوئی ہے ہی نہیں۔ پنجاب، اتراکھنڈ و منی پور تینوں ریاستوں میں چناؤ ہوچکے ہیں اور کسی کو صحیح سے معلوم نہیں کہ ریاست کا مالک کون ہے؟ وزیر اعلی،گورنر اور چیف الیکٹرول آفیسر یا چیف الیکشن کمیشن دہلی کون ہے، جس کے احکامات پر ریاست کا انتظام چلے؟ بدقسمتی یہ ہے کہ اس حالت کو پیدا ہونے سے بچایا جاسکتا اگر چناؤ کمیشن تھوڑی سی توجہ دیتا۔اگر پنجاب اتراکھنڈ میں چناؤ 3 مارچ کو ہوتے اور نتیجہ6 مارچ کو آتا تو اس بے یقینی کی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔ سوال یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسی کونسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے ریاستوں کے انتظامیہ کو پوری طرح ٹھپ کردیا گیا۔ چناؤ کمیشن بیشک یہ دلیل دے کہ ہم وہاں جلد ہی چناؤ کروانا چاہتے تھے کیونکہ چناؤ کی تاریخوں کو بہت سی باتوں کو دیکھ کر ہی طے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی پارٹیوں کی رائے ،دوسرے ریاستوں میں چناؤ کے انتظامات کو دیکھنا، موسم و اسکول امتحانات و چھٹیاں،تہوار وغیرہ وغیرہ؟ اکالی دل کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ ہم تھوڑا حیران ضرور ہوئے ہیں جب 30 جنوری کو پولنگ کی تاریخ کا اعلان ہوا۔ کیونکہ ہم امید کررہے تھے کہ چناؤ 10 سے15 فروری کے درمیا ن ہوں گے کیونکہ پچھلے اسمبلی چناؤ 2002 اور 2007 میں13 فروری کو ہوئے تھے۔
اتراکھنڈ کی چناوی تاریخ میں یہ پہلی بار تھا جب چناؤ ایسے وقت ہوئے جب ریاست میں کڑاکے کی سردی تھی۔ پہاڑی علاقوں میں برف پڑی ہوئی تھی۔ ریاست بننے کے بعد 2002 اور 2007 میں دو بار اسمبلی انتخابات ہوئے۔ 2002 ء میں چناؤ14 فروری کو ہوئے تھے اور نتیجہ24 فروری کو اعلان کردیا گیا۔ اسی طرح2007ء میں چناؤ21 فروری کو ہوئے تھے اور چھ دن بعد نتیجہ 27 فروری کو اعلان ہوا تھا۔ چناؤ کمیشن کے حکام نے کہا کہ ابھی تک وزیر اعلی نے چناؤ ضابطے کو نرم کرنے کی کوئی خواہش نہیں ظاہر کی ہے۔ بیشک وزیر اعلی ابھی بھی نگراں وزیر اعلی ہیں لیکن وہ کسی بھی افسر کا ٹرانسفر نہیں کرسکتے اور نہ ہی صحیح معنوں میں جواب طلبی کرسکتا ہے۔ افسر شاہی اس لئے بھی وزیر اعلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی کیونکہ وہ کہتے ہیں پتہ نہیں یہ دوبارہ اقتدار میں آئیں بھی یا نہیں؟ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی بھون چند کھنڈوری نے چناؤ کمیشن کے ذریعے طے کردہ چناؤخوف پر اعتراض کیا تھالیکن چناؤ کمیشن نے اسی نظرانداز کردیا۔ ایسی صورت سے بچایا جاسکتا تھا اگر ان دونوں ریاستوں میں چناؤ نتائج آنے سے کچھ دن پہلے ہوتے۔اس لئے سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے حساب سے چناؤ کمیشن کے اس فیصلے کا مطلب نکال رہی ہیں۔ اکالی بھاجپا کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمیشنر نے کانگریس کو خوش کرنے کے لئے یہ کہہ دیا تاکہ پارٹی ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کردے۔
Akali Dal, Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Election Commission, Punjab, State Elections, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!