سائنسدانوں نے بھی مانا رام سیتو انسانی تیار کردہ ہے

بھارت میں گھٹیا سیاست کی وجہ سے بھلے ہی رام سیتو کو متنازع اشو با دیا گیا ہے اور اس کے جواز پر بھی سوال اٹھائے گئے لیکن نامور سائنسدانوں ،آرکیولوجسٹ کی ٹیم نے سیٹلائٹ سے حاصل تصاویر اور سیتو کی جگہ کے پتھروں اور ریت کی ریسرچ کرنے کے بعد یہ پایا گیا ہے کہ بھارت اور سری لنکا کے درمیان ایک سیتو کی تعمیر کئے جانے کے اشارہ ملتے ہیں۔ دنیا بھر میں تحقیق رساں بھی اب یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ بھارت ۔سری لنکا کے درمیان واقع قدیم ایڈکس برج یعنی رام سیتو اصل میں انسان کے ذریعے ہی تیارکردہ ہے۔ بھارت کے رامیشورم کے قریب واقع جزیرہ پیبن اور سری لنکا کے جزیرہ چنار کے درمیان50 کلو میٹر لمبا نایاب پل کہیں سے لائے گئے پتھروں سے بنایا گیا ہے۔سائنسداں اس کو ایک سپر ہیومن کارنامہ مان رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت ۔سری لنکا کے درمیان 30 میل کے رقبہ میں ریت کی چٹانیں پوری طرح سے قدرتی ہیں، لیکن ان پر رکھے گئے پتھر کہیں سے لائے گئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ قریب 7 ہزار سال پرانے ہیں جبکہ ان پر موجود پتھر قریب 4سے5 ہزار برس پرانے ہیں۔ بتادیں کہ رام سیتو کو شری رام کی نگرانی میں چٹانوں اور ریت سے بنایا گیا تھا جس کا تفصیل سے تذکرہ بالمیکی رامائن میں ملتا ہے۔ رام سیتو کی عمر رامائن کے مطابق 3500 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ کچھ اسے آج سے 7 ہزار سال پرانا بتاتے ہیں۔ رام سیتو کا تذکرہ کالی داس کی رگھوونش میں سیتو کا ذکر ہے۔ ہندوستانی سیٹلائٹ اور امریکی خلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ناسا نے سیٹلائٹ سے کھینچی گئی تصاویر میں ہندوستان کے ساؤتھ میں دھنش کوٹی تک سری لنکا کے نارتھ ویسٹ پمبن کے درمیان سمندر میں 48 کلو میٹر چوڑی پٹری کی شکل میں ابھرے اے یو۔ حصہ کی لائن دکھائی دیتی ہے۔ اسے ہی آج رام سیتو یا رام کا پل مانا جاتا ہے۔ 
قدیم واستو کاروں نے اس اسٹرکچر کی پرت کا استعمال بڑے پیمانے پر پتھروں اور گولائی کی طرح کی وسیع چٹانوں کو کم کرنے میں کیا ہے ساتھ ہی کم سے کم دھنوتو و چھوٹے پتھروں اور چٹانوں کا استعمال کیا گیا جس سے آسانی سے ایک لمبا راستہ تو بنا ہی ساتھ ہی وقت کے ساتھ یہ اتنا مضبوط بھی بن گیا کہ انسانوں و سمندر کے دباؤ کو بھی سہہ سکے۔ پچھلی یوپی اے سرکار ے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائرکیا تھا کہ کوئی ثبوت نہیں ہے رام سیتو کوئی پوجنے کا مقام نہیں ہے۔ ساتھ ہی سیتو کو توڑنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ بعد میں سخت نکتہ چینی کے درمیان اس وقت کی حکومت نے یہ حلف نامہ واپس لے لیا تھا۔تحقیق رسانوں نے اسے سب سے بڑھیا اور انسانی آرٹ بتایا ہے۔ جے شری رام۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!