چابہار: جہاں 12 مہینے بہار چھائی رہتی ہے
ایران کے چابہار بندرگاہ کے پہلے مرحلہ کے افتتاح سے آنے جانے کا ایک نیا راستہ تو کھلا ہی ہے یہ بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان نئی حکمت عملی رابطوں کی تاریخی شروعات بھی ہے۔ چابہار پہلی بندرگاہ ہے جسے بنانے میں بھارت کی سیدھی حصہ داری ہے۔ بھارت نے اس بندرگاہ کے پہلے مرحلہ کو چلانے اور سہولت سے آراستہ کرنے میں جو دلچسپی دکھائی اس سے چین کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی یہ پیغام گیا ہے کہ اقتصادی۔ کاروباری اہمیت کے منصوبوں کو بھارت ہی تیز رفتاری سے آگے بڑھانے میں اہل ہے۔ سال 1947 ء میں دیش تقسیم کے بعد پورے مشرقی و وسطی ایشیا اور یوروپ سے جغرافیائی طور پر الگ ہوئے بھارت نے اس دوری کو بھرنے کی سمت میں اب تک کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اب بغیر پاکستان گئے ہی افغانستان اور پھر اس سے آگے روس اور یوروپ سے جڑ گیا ہے۔چابہار بندرگاہ بننے کے بعد سمندری راستے ہوتے ہوئے بھارت کے جہاز ایران میں داخل ہوجائیں گے۔ اس کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیاتک کے بازار ہندوستانی کمپنیوں اور کاروباریوں کے لئے کھل جائیں گے۔ اس لئے چا بہار بندرگاہ کاروبار اور فوجی لحاظ سے بھارت کے لئے کافی اہم ہے۔ بھارت کی نظر اس کے ذریعے اپنی مصنوعات کے لئے یوروپی ملکوں کے بازار میں جگہ بنانے پر بھی ہے۔ بھارت اس مقصد کے ساتھ ایک مخصوص اقتصادی زون بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی سڑک قومی شاہراہ جہاز رانی وزیر نتن گڈکری نے کہا تھا بھارت کی اسکیم چابہا ر میں کچھ دولاکھ کروڑ روپئے سرمایہ کرنے کی ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو پاک۔ چین کو کرارا جواب ملے گے کیونکہ چابہار سے گوادر کی دوری صرف 72 کلو میٹر دور ہے۔ پاکستانی میڈیا پہلے سے ہی شور مچا رہا ہے کہ چابہار کے ذریعے بھارت ، افغانستان اور ایران سے مل کر اسے گھیرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت نے اس بندرگاہ کو بنانے کے لئے 50 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد 2002ء میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور اس وقت ایرانی صدر سید محمد خاتمی نے رکھی تھی۔ یوں بھی چاربہار کا وہاں کی مقامی زبان میں مطلب ہوتا ہے ایسی جگہ جہاں 12 مہینے بہار چھائی رہتی ہو۔ امید کی جانی چاہئے کہ ایران اور افغانستان سے بھارت کے رشتوں میں چھائی یہ بہار یوں ہی قائم رہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں