نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے جھٹکے سے نکلنے میں ابھی وقت لگے گا

8 نومبر 2016ء کو نوٹ بندی کا اعلان ہوا تھا۔ اس وقت رات آٹھ بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹی وی اسکرین پر آکر اس کا اعلان کرکے سب کو حیران پریشان کردیا تھا۔ اس فیصلہ کے کئی سیاسی ،اقتصاری اور سماجی اثرات اور پہلو رہے ہیں۔ اس دن پی ایم مودی نے نوٹ بندی کو ہندوستانی سیاست میں گیم چینجر کا لمحہ کہا تھا۔فوری طور پر عمل سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن سے باہر کرنے کا اعلان کیا اور اسے بدلنے کے لئے ایک خاص وقت میعاد دی۔ اس کے بعد شروع ہوااقتصادی اور سیاسی سطح پر اس بڑے فیصلہ کے نفع نقصان کے تجزیہ کا دور۔ جس وقت نوٹ بندی ہوئی تھی اس وقت شاید ہی کسی کو یہ اندازہ رہا ہو کہ اس کے اتنے دوررس نتائج ہوں گے۔ نوٹوں کو بدلنے کے لئے لمبی لمبی لائنیں لگیں۔100 سے زیادہ لوگوں نے ایسا کرتے ہوئے دم توڑ دیا۔ شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوگا کہ اس کے دوررس اثرات ہوں گے۔ ایک سال بعد بھی لوگ اس فیصلہ کے اثر سے سنبھل نہیں پائے۔ رہی سہی کثر جی ایس ٹی نے پوری کرڈالی۔ دونوں ہی قدم ٹھیک طریقے سے ہوم ورک کئے بغیر لاگو کردئے گئے۔ بھارتیہ ریزرو بینک کے سابق گورنر وائی ۔وی۔ ریڈی نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے قدموں سے معیشت کو لگے جھٹکے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ معیشت کو اس صورتحال سے پوری طرح سے نکلنے اور اونچی گروتھ کے راستے پر آگے بڑھنے کے لئے دو سال کا وقت اور درکار ہے۔ انہوں نے کہا یہ ایک جھٹکا ہے جس کی منفی اثرات کے ساتھ شروعات ہوئی ہے۔ اس سے کچھ بہتری آسکتی ہے اور اس کے بعد ہی کچھ فائدہ مل سکتا ہے فی الحال اس وقت اس میں پریشانی ہے اور منافع بعد میں آئے گا۔ کتنا فائدہ ہوگا ، کتنے فرق کے بعد یہ ہوگا یہ دیکھنے کی بات ہے۔ ریڈی نے ممبئی میں حالات پر اخبار نویسوں کے ایک گروپ کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ اس وقت اقتصادی اضافہ کو لیکر کوئی اندازہ لگانا کافی مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ معیشت پھر سے 7سے 8 فیصد کے امکانی اضافہ کے راستہ پر کب لوٹے گی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب وہ ریزرو بینک کے گورنر ہوا کرتے تھے اس کے مقابلہ پچھلے تین سال میں کچے تیل کے دام ایک تہائی پر آگئے تھے۔ حالانکہ اس درمیان جی ایس ٹی لاگو ہونے، نوٹ بندی کا قدم اٹھانے اور بینکوں میں بھاری ایم پی اے (مالی خسارہ) کی وجہ سے اقتصادی اضافہ کے دوران پچھلے حکومت میں بغیر غور و خوض کئے قرض اور کرپشن کے الزامات کو لیکر ٹیلی کام اور کوئلہ سیکٹر میں رونما واقعات سے کمپنی سیکٹر پر کافی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اس پورے واقعہ سے بینکنگ مشینری میں پھنسا قرض 15 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟