ہرپانچ سال میں بدلتی ہے ہماچل میں سرکار

ہماچل پردیش میں 9 نومبر کو ہونے والے اسمبلی چناؤ کا نتیجہ طے کرنے میں 18 سے 40 سال تک کے بزرگوں کا اہم کردار ہوگا۔ چناؤ کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق ہماچل میں 50 لاکھ ووٹروں میں سے آدھے سے زائد تعداد 18سے40 سال کے عمر کے لوگوں کی ہے جبکہ 40 سے60 تک عمر کے ووٹروں کی سانجھے داری ایک تہائی ہے۔ 68 ممبری اسمبلی والی اس پہاڑی ریاست کی کل آبادی 7363912 ووٹروں پر مبنی ہے۔ چناؤ کمیشن کے ذریعے جاری شناختی کارڈ یافتہ ووٹروں کی کل تعداد 4988362 ہے۔ان میں 2531312 مرد اور 245732 خاتون اور باقی 14 کنڑووٹر ہیں۔ ہماچل پردیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہر پانچ سال میں سرکار بدل دیتے ہیں۔ تبدیلی اقتدار کی روایت قائم ہوچکی جو سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی ایک پہیلی بنی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کام چاہے جتنا اچھا کروں لیکن لوگوں کو پسند نہیں آتا اور وہ ہر چناؤ میں نیا تلاشتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ اتفاق سے ہماچل میں دو ہی پارٹیاں اہم ہیں کانگریس اور بی جے پی۔ تبدیلی اقتدار کا کھیل انہی دو پارٹیوں کے درمیان چلتا ہے۔ 1970ء میں جب بی جے پی کا جنم نہیں ہوا تھا تو کانگریس سے جنتا پارٹی نے اقتدار ہتیا تھا اور اس سے پہلے یہاں کانگریس کا ہی راج کاج چلتا تھا۔ پانچ سال میں اقتدار کیوں بدلتے ہیں اس سوال کے جواب میں کانگڑا کے باشندے کملیش براگٹا جو ایک ٹیچر ہیں فرماتے ہیں کہ ہماچل کے لوگوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ دوسری ریاستوں کی طرح یہاں علاقائی پارٹیاں وجود میں نہیں ہیں۔علاقائی پارٹیاں مقامی لوگوں کے جذبات کو اچھی طرح سے سمجھتی ہیں۔ قومی پارٹیوں کا نظریہ بھی قومی ہی ہوتا ہے ہمیں ادلا بدلی کر انہیں ہی چننامجبوری ہے۔ 70 سالہ پنشن یافتہ شخص راجندررانا کا کہنا ہے بہت چناؤ دیکھے ،نیتاؤں کو بہت قریب سے پہچاننے کا موقعہ بھی ملا، چاہے وہ اس پارٹی کا ہو یا اس پارٹی کا ان کا بنیادی کردار ایک ہی ہوتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایکس پارٹی کی سرکار ہے یا وائی پارٹی کی سرکار ہے۔ جو سرکار میں ہے وہ اپنی من مرضی کرے گا۔ دو پارٹیوں میں کسی ایک کو چننا ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ وہ فرض پورا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے ووٹر نے بتایا کہ کسی بھی چیز کو ایک جگہ رکھ دو اور اسے الٹ پلٹ کرو نہیں تو زنگ لگ جاتا ہے۔زنگ لگنے کے بعد پھر وہ چیز کام کی نہیں رہ جاتی سرکار بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اگر اس کی ادلا بدلی نہ کی جائے تو اس میں بھی زنگ لگنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے بچنے کو ہی ہم لوگ اس کی ادلا بدلی کرتے رہتے ہیں۔ تبدیلی لگاتار ہوتی رہنی چاہئے۔ تبدیلی ہوتے رہنے سے نئی چیزیں نکل کر آتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟