سانسوں کی ایمرجنسی: دہلی بنی گیس چیمبر

پچھلے کچھ دنوں سے تو انتہا ہی ہوگئی ہے۔دہلی این سی آر میں آلودگی نہایت خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دہلی گیس چیمبر میں بدل چکی ہے۔ اتنا دھنواں ہے کہ سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ آنکھوں میں جلن، کھانسی زکام عام ہوگئے ہیں۔ ہوا میں آلودگی کی سطح خطرناک سطح تک پہنچ گئی ہے۔ پی ایم 2.5 کی مقدار محفوظ مانے جانے والی سطح سے 10 گنا زیادہ ہے۔ آئی ایم اے (انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن ) نے ہیلتھ ایمرجنسی ڈکلیئر کردی ہے۔ سب کی جان جیسے گلے میں اٹک گئی ہو لیکن سانس لینے سے کوئی بھلا کیسے بچ سکتا ہے۔ دیوالی کے بعد پھیلے دھنویں کے بعد اب پرالی جلانے میں ہوئی دھند سے آلودگی سطح بڑھ کر کئی گنا ہوچکی ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے مطابق اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) کی سطح 100 تک عام مانی جاتی ہے۔ حالانکہ دہلی کا اے کیو آر 300-400 کے درمیان رہتا ہے لیکن منگلوار کو یہ سطح 440 تک پہنچ گئی تھی۔ آلودگی سے نمٹنے کیلئے دہلی حکومت پانی کے چھڑکاؤ سے لیکر آڈ ۔ ایون کو پھر سے لاگو کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں کہ اکیلے بھارت ہی اس مسئلے سے لڑ رہا ہے کئی دیگر دیشوں میں بھی آلودگی کی سطح باعث تشویش حالت میں پہنچ چکی ہے۔ آلودگی سے نمٹنے کے کئی طریقے اپنائے گئے ہیں جن میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سال 2014 میں چین کے کئی شہروں میں دھنواں چھا گیا تھا اور آلودگی کی سطح پالوشن کیپٹل کہلانے والے شہر بیجنگ میں بہت اونچی سطح تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد چین نے آلودگی سے نمٹنے کے لئے جنگی سطح پر کوششیں شروع کیں یہاں ملٹی فنگشن ڈسٹ سپریشن ٹرک کا استعمال کیا گیا۔ اس کے اوپر ایک وسیع واٹر کینن لگا ہوتا ہے جس سے 200 فٹ اوپر سے پانی کا چھڑکاؤ ہوتا ہے۔ پانی کے چھڑکاؤ سے دھول نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے وینٹی لیٹر کوریڈور بنانے سے لیکر اینٹی اسماک پولیس تک بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پولیس جگہ جگہ جا کر آلودگی پھیلانے والے اسباب جیسے سڑک پر کچرا پھینکنے اور جلانے پر نظر رکھتی ہے۔ چین میں کوئلے کی کھپت کو بھی کم کرنے کی کوششیں کی گئیں جو وہاں آلودگی بڑھنے کی اہم وجوہات میں سے ایک تھی۔ فرانس کی راجدھانی پیریس میں ہفتے کے آخر میں کار چلانے پر پابندی لگادی گئی تھی اور وہاں بھی آڈ ۔ ایون کا طریقہ اپنایا گیا۔ ساتھ ہی ایسے دنوں میں جب آلودگی بڑھنے کے امکان سے بھی پبلک گاڑیوں کو ہٹایاگیا اور گاڑی شیئر کرنے کیلئے پروگرام چلائے گئے ساتھ ہی ایسے دنوں میں جب آلودگی بڑھنے کا امکان ہو تو گاڑیوں کو صرف 20 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلانے کا حکم دیا گیا۔ جرمنی کے علاقہ فری برگ میں آلودگی کم کرنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے پر زوردیا گیا۔ یہاں ٹرام نیٹورک کو چلایاگیا۔ برازیل کے ایک شہر ٹاپو بٹاؤ کو موت کی وادی کہا جاتا تھا یہاں آلودگی اتنی زیادہ تھی کہ منصوعی بارش سے لوگوں کا بدن جل جاتا تھا لیکن صنعتوں پر چمنی فلٹرس لگانے کے لئے دباؤ ڈالنے کے بعد شہر میں 10 فیصد تک آلودگی میں کمی آئی ہے اور ہوا کی کوالٹی پر نگرانی کے بہتر طریقے اپنائے گئے۔ ہمارے لئے زیادہ باعث تشویش بات یہ ہے کہ پچھلے سال بھی دیوالی کے بعد تین چار دنوں تک ایسا ہی ڈراؤنا منظر تھا ۔باوجود اس کے اس طرف سے قریب سبھی اہل سرکاری مشینری نے آنکھیں بند کر کے رکھیں۔ کیا ایسے سطحی طریقے سے ہماری موجودہ اور آنے والی پیڑھی صحت مند اور خوشحال رہ پائے گی؟ بالکل نہیں۔ تو ہمیں حل تلاشنے ہوں گے۔ وہ بھی دوررس اور مستقل اور یہ تبھی ہوگا جب سطحی طریقے کے ساتھ ساتھ جنتا کو جوابدہی اور بیدار بنایا جائے گا۔لہٰذا سب سے پہلے آلودگی کے کھلنائکوں پرالی جلانا، ڈیزل کی گاڑیوں کا اندھادھند چلن، کوئلہ سے بننے والی بجلی اور دیگر پلانٹ کو کنٹرول ، سڑکوں پر دھول اور کاربن ذرات وغیرہ کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو درست کرنا ہوگا۔ آگ لگنے کے وقت دھنواں نکالنے کے طریقے سے جب تک نہیں بچا نہیں جائے گا، دہلی این سی آر موت کی اس بھٹی میں شہری زہریلے دھنویں میں گھٹتے ہی رہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟