کیا پاکستانی میڈیا ہندوستانی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے

پچھلے کچھ برسوں سے ساری دنیا میں میڈیا پر حملہ تیز ہوگئے ہیں۔ پترکاروں کو اپنی قلم کی آزادی کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ بہت سے ملکوں کی بات ہم نہیں کرتے لیکن بھارت اور پڑوسی پاکستان میں میڈیا کتنا آسان ہے اس کی بات کرتے ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ باوجود اس کے رپورٹرس وداؤتھ بارڈر ادارہ کی جانب سے شائع ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس رپورٹ 2016 کے مطابق پریس کی آزادی کے پیمانے پر بھارت نچلے پائیدان پر ہے۔ 180 ملکوں کی فہرست میں 133 ویں نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔ دیش میں پریس کی آزادی مسلسل بگڑرہی ہے۔ بھارت میں 2015 میں 4 صحافیوں کا قتل ہوا اور ہر مہینے کم سے کم ایک پترکار پر حملہ ہوا۔ کئی معاملوں میں رپورٹروں پر مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے بھی درج کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ صحافیوں نے خود پر سینسرشپ لگا لی ہے۔ میڈیاپر نظررکھنے والی ویب سائٹ دی اٹ ڈاٹ اے آر جی گیتاسیمو کہتی ہیں کہ ان حملوں کا دائرہ چونکانے والا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر انٹر نیٹ اور اخبارات پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ دھوکہ دھڑی پر ہتک عزت کے مقدمے اور مقامی مافیہ کے کرپشن کی خبر کور کرنے پر صحافیوں کے قتل سے لیکر فری لانس صحافیوں کو ٹارچر کرنا اور جیل بھیجنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے پاکستان میں جمہوریت کی پوزیشن بھی ڈانواڈول رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر انتہا پسندی بھی پھیلی ہوئی ہے اس لئے پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا 147 ویں پائیدان پر ہونا بہت چونکانے والا نہیں ہے۔ یہ رینکنگ پاکستان کے آزاد میڈیا کے دعوے سے میل نہیں کھاتی۔ 2016 رپورٹرس وداؤتھ بارڈر کی رپورٹ پاکستان کے بارے میں کہتی ہے کہ صحافیوں کو جو نشانہ بناتے ہیں ان میں انتہا پسند گروپ اسلامی تنظیم، خفیہ ایجنسیاں شامل ہیں۔ یہ پریس کی آزادی میں رکاوٹ پہنچاتی ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے بھلے ہی لڑرہے ہوں لیکن جیسا ہمیشہ میڈیا کو چوٹ پہنچانے کے لئے تیار رہتے ہیں ایسے میں پاکستان کے سماچار اداروں نے بھی بھارت کی طرح سے سیلف سینسر شپ اپنا لی ہے۔ 2014ء میں قتل کی نیت سے کئے گئے حملہ میں بال بال بچے اور اب امریکہ میں رہ رہے پاکستانی صحافی رضا رومی کہتے ہیں جہاں تک پاکستانی قومی سلامتی کی بات ہے انگریزی اخباروں میں تھوڑی جگہ الگ نظریہ ظاہرکرنے کے لئے ہوسکتی ہے لیکن ٹی وی نیوز میں حکمراں اداروں کی مخالفت کافی خطرناک ہے۔ ادارہ اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ رومی ایک ٹی وی شو ہوسٹ کیا کرتے تھے اور انہوں نے دیش کی خارجہ پالیسی سے اختلافات جتائے تھے اور اقلیتوں کے حقوق کے اشو کو کیوں اٹھایا گیاتھا۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کے اشو پر رپورٹنگ کرنے کے دوران 2014 میں پاکستان کے نامور اینکر حامد میرپر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ تب میر کے بھائی نے ٹی وی چینل پر آکر اس حملہ کے لئے پاک فوج کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حال ہی میں پاکستان کا بڑا اخبار ڈان اپنی اس خبر پر قائم ہے جس میں بتایا گیا تھا سیکورٹی کے مسئلے پر فوج اور سویلن حکومت کے درمیان اختلاف ہے۔ اس معاملے کو بھارت ۔ پاکستانی میڈیا میں کئی لوگ بھارت کے مقابلے پاکستانی میڈیا کو زیادہ طاقتور ہونے کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاک ٹی وی کی بحث میں پاک صحافی کھل کر اپنی سرکار کی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہیں۔ پاکستانی صحافیوں کو بھی لگتا ہے کہ وہ زیادہ ہمت والے ہیں۔ اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں میں پریس کی آزادی کی صورتحال اچھی نہیں مانی جاسکتی۔ دونوں ہی ملکوں میں میڈیا پر لگام لگانے کی کوششیں بڑھتی جارہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں پریس کی آزادی خطرے کے دور سے گزر رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟