ٹرمپ کا ایشیائی دورہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پانچ ایشیائی ممالک کا دورہ کئی معنوں میں اہم ہے۔ان میں جاپان، ساؤتھ کوریا، چین، ویتنام اور فلپین شامل ہیں۔پہلے وہ جاپان پہنچے، ان کا ایشیائی دورہ 14 نومبر کو فلپین میں ختم ہوگا۔ اس دوران وہ سبھی ملکوں کے ساتھ اہم مسئلوں پر تبادلہ خیالات کریں گے لیکن جاپان، چین اور ساؤتھ کوریا میں بحث کا اہم مرکز نارتھ کوریا ہی ہوگا۔ مسلسل میزائل تجربے کرکے امریکہ کو حملے کی دھمکی دینے والے نارتھ کوریا کی گھیرا بندی کے لئے یہ دورہ اہم رہے گا۔ 25 سال میں یہ کسی بھی امریکی صدر کا سب سے طویل ایشیائی دورہ ہے۔ مانا جارہا ہے کہ اس دورہ میں صدر ٹرمپ ساؤتھ کوریا اور جاپان کے ساتھ مل کر تیونگ یانگ کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کریں گے جبکہ اس مسئلے پر بھی دباؤ بڑھائیں گے، ٹرمپ کے دورہ میں سب سے اہم چین ہوگا۔ ٹرمپ بیجنگ میں چینی صدر شی جن فنگ کے ساتھ ملاقات کریں گے کیونکہ چین نارتھ کوریا کا سب سے بڑا کاروباری دوست ملک ہے اس لئے ٹرمپ نے نارتھ کوریا کے حوصلے پر لگام لگانے کے لئے پہلے ہی چین کو ضروری قدم اٹھانے کو کہا تھا، لیکن چین کی طرف سے اس پر کوئی اہم فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ اس پر دونوں میں اہم بات چیت ہوگی۔ جاپان کی راجدھانی ٹوکیو میں ٹرمپ نے ایتوار کوکہا کہ کسی بھی ڈکٹیٹرکو امریکہ کے عزم کو کم کرکے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ٹرمپ کا یہ پہلا جاپان دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب نارتھ کوریا کے نیوکلیائی پروگراموں اور میزائل تجربوں کو لیکر کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔ نارتھ کوریا نے جاپان کے ہوائی خطہ کے اوپر دو بیلسٹک میزائلیں داغی تھیں اور پرشانت مہاساگر میں ہائٹروجن بم تجربے کی دھمکی دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی فوجیں ہمیشہ کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ امریکی فوج کی وراثت ہیں۔ آزادی اور انصاف کے لئے اس فوج کو پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ ٹرمپ ایسے وقت ایشیائی دورہ پر نکلے ہیں جب نارتھ کوریا سے امریکہ کی کشیدگی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ امریکی بمبار کوریائی جزیرے کے اوپر سے اڑان بھر چکے ہیں اور یہ اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ تیونگ یانگ ایک اور نیوکلیائی تجربہ کر سکتا ہے۔ ادھر امریکہ میں ٹیلی کاسٹ ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ نارتھ کوریا کے لیڈر کم جونگ اون کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے یقینی طور سے تیار ہوسکتے ہیں جو اس بات کا اشارہ تھا کہ بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی کے ساتھ بھی ملاقات نہیں کروں گا۔ میں نے اس بارے میں سوچا نہیں کہ یہ طاقت ہے یا کمزوری، میرا خیال ہے کہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ چین کس حد تک امریکہ کا ساتھ دیتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟