آٹھ ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کی مانگ

سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے جس میں بھارت کی 8 ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دئے جانے کی مانگ کی گئی۔ اس عرضی کے بعد یہ بحث تیز ہوگئی ہے آخر اس مانگ کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہندوؤں کو بھی کچھ ریاستوں میں اقلیتی درجہ ملنا چاہئے؟ کورٹ میں جو عرضی داخل ہوئی ہے اس میں بتایا گیا کہ 8 ریاستوں لکشدیپ، میزورم، ناگالینڈ، میگھالیہ، جموں وکشمیر، اروناچل پردیش، منی پور اور پنجاب میں ہندوؤں کی آبادی بیحد کم ہے انہیں یہاں اقلیت کا درجہ ملے تاکہ سرکاری سہولیات مل سکیں۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ اقلیت کا درجہ نہیں ملنے سے ان ریاستوں میں ہندوؤں کو بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ عرضی دائر کرنے والے اشونی اپادھیائے نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 2002 میں فیصلہ کیا تھا کہ اقلیت کا درجہ ریاستی سطح پر دیا جانا چاہئے۔ 8 ریاستوں میں ہندو بہت کم ہیں باوجود اس کے انہیں اقلیت کا درجہ نہیں دیا گیا۔ 2011 ء میں ہوئی آبادی کے مطابق لکشدیپ میں 2.5 فیصد ، میزورم میں 2.75 فیصد، ناگالینڈ میں 8.75فیصد، میگھالیہ میں 11.53 فیصد، جموں کشمیر میں 28.44فیصد، اروناچل پردیش میں 29 فیصد، منی پور میں 3.39 فیصد، پنجاب میں 38.4 فیصد ہندو ہیں۔ آئین کی دفعہ 25 سے لیکر 30 تک کے تقاضوں کے مطابق اقلیتی فرقہ کے لوگوں کا تحفظ ،اقلیتی فرقے کے لوگوں کو مذہبی و سماجی اور تعلیمی کاموں کے لئے سرکاری مدد۔ اقلیتی ادارہ کھولنے کے لئے سبسڈی ان میں اقلیتی طلبا کو ریزرویشن بھی مذہبی کاموں کے لئے بھی اقلیتوں پر سبسڈی۔ ہر سال ٹیکنیکل اداروں میں 25 ہزار اقلیتی طلبا کو اسکالر شپ، دیگر اقلیتوں کے لئے پی ایم کا 15 نکاتی پروگرام ہے اس کے تحت روزگار کے لئے 9 فیصد کی شرح پر لون دینا شامل ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی سرکار کا 1997 کا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جانا چاہئے۔ اقلیت اعلان کرنے کے لئے گائڈ لائنس طے کی جانی چاہئے۔ 8 ریاستوں میں جہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہے وہاں انہیں اقلیتی درجہ دیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟