سپریم کورٹ کے فائنل فیصلہ سے آدھار لنک نہ ہو

آدھارکارڈ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ موبائل اور بینک کھاتوں کو آدھار سے لنک کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کا معاملہ تو نہیں ہے۔ عدالت ہذا نے حالانکہ اس معاملہ میں عارضی روک لگانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس معاملہ کو آئینی بنچ دیکھ رہی ہے اور سماعت نومبر کے آخری ہفتے میں ہوگی۔ عدالت نے یہ بھی کہا مرکزی حکومت پہلے ہی آدھار لنک کرنے کی میعاد بڑھا چکی ہے۔ بینک اور موبائل کمپنیاں گراہکوں کو میسج بھیج کر خوفزدہ نہ کریں۔ بینک اور ٹیلی کام کمپنیاں گراہکوں کو جو میسج بھیج رہی ہیں ان سے بتائیں اکاؤنٹ اور موبائل نمبر سے آدھار جوڑنے کی آخری تاریخ بسلسلہ 31 دسمبر 2017 اور 6 فروری 2018 ہوگی۔ جسٹس اے سیکری نے تو یہاں تک کہا کہ میں کہنا نہیں چاہتا ، لیکن ٹیلی کام کمپنیاں اور بینکوں کی طرف سے ایسے میسج مجھے بھی آرہے ہیں۔ لوگوں کو لگاتار فون آرہے ہیں۔ ان میں بینک اور موبائل کمپنیوں کی غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کو حکومت کی طرف سے احکامات آئے ہوں گے اور وہ اس کی تعمیل کررہے ہیں لیکن سرکار کا حکم دینا صحیح ہے یا غلط اس پر کورٹ میں سینئر وکیل آنند گروور نے سوال اٹھایاتھا۔ یہ صحیح سوال بھی ہے کہ بینک یا موبائل کمپنیاں جس طرح سے دھمکی بھرے لہجہ میں آپ کو میسج اور کال کررہی ہیں کہ آپ کا بینک اکاؤنٹ بند ہوجائے گا یا موبائل بند ہوجائے گا، ایسا اختیار تو سرکار کو بھی نہیں ہے۔ موبائل کے معاملہ میں تھوڑی بدمعاشی بھی ہوئی ہے وہ حکم انہوں نے سپریم کورٹ کے نام سے نکالا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اس لئے ہم اسے ضروری کررہے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف اتنا کہا تھا کہ ہر ایک موبائل نمبر کا ویریفکیشن کریں۔ کسی نہ کسی طرح سے حکم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی توہین ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ آدھار کو ضروری کہیں بھی نہیں بنا سکتے صرف 6 اسکیموں کے لئے مرضی کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ آدھار کو ضروری بنانے کی وجہ سے کئی پریشانیاں بھی ہورہی ہیں اس کے بعد سے کہیں پر آدھار نمبر ڈی ایکٹیویٹ ہوتے تو کہیں پر فنگر پرنٹ کا ویری فکیشن نہیں ہوپارہا۔ جھارکھنڈ میں ایک کنبہ کا راشن کارڈ صرف اس لئے کاٹ دیا گیا کیونکہ وہ آدھار سے لنک نہیں تھا۔ دیو دھر میں روپالی مرانڈی نے لنک کیاتھا لیکن فنگر پرنٹ نہیں لے رہا تھا تو وہ دو مہینے راشن نہیں لے پائے، ان کی موت ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کے ہنگامہ کے باوجود آدھارکارڈ پر شبہ کی سیاست گرم ہوتی جارہی ہے۔بھاجپا نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے آدھار کو تباہی والی یوجنا بتاتے ہوئے بھارت کی اہم ترین پہچان اتھارٹی کو ہی ختم کرنے کی صلاح دے کر اس یوجنا کی کمزوری اور وسیع شکل کے بارے میں توجہ مرکوز کرادی ہے۔سوامی نے یاد دلایا کہ 2014 ء کے چناؤ میں جب موجودہ مرکزی وزیر انند کمار آدھار یوجنا کے خالق نندن نیل کنی کے خلاف بینگلورو ساؤتھ سے چناؤلڑ رہے تھے تب وہاں پر آدھار کارڈ اشو بنا تھا۔ سوامی نے نیل کنی کو بچاؤ کی پوزیشن میں لا کھڑا کردیا تھا۔آنند کمار کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے باوجود اگر این ڈی اے سرکار نے آدھار ایکٹ پاس کر کے اسے سماجی بہبودی یوجنا ؤں سے ہی نہیں بلکہ لوگوں کے بینک کھاتوں اور فون نمبروں سے جوڑنا ضروری کردیاہے۔ آدھار کے ساتھ ایک بڑی دقت بایومیٹرک کے نشان بدل جانے اور کئی بار پہچان نہ ہوپانے کی بھی ہے۔ لیکن اس میں بھی سنگین مسئلہ اعدادو شمار اور پہچان کے چوری ہونے اور سرکار کی نگرانی کے مورچے پر ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے سب سے اہم ترین فیصلے میں پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق مانا ہے۔ ایسے میں آدھار ضروری بنائے جانے پر سوال اٹھنے فطری ہی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟