اور اب پیرا ڈائز پیپرس

پنامہ پیپرس لیک ہونے کے 18 مہینے بعد پیراڈائز پیپرس نام سے ایک اور بڑا عجب ترین ڈاٹا سامنے آیا ہے۔ اس میں ان فرموں اور آف شور کمپنیوں کی جانکاری ہے ، جو دنیا بھر میں امیروں کا پیسہ بیرونی ممالک بھیجنے میں مدد کرتی ہیں۔ لیک ہوئے ان 1.34 کروڑ دستاویزات میں کئی اہم ہندوستانیوں کے بھی نام ہیں۔دنیا بھر کے صحافیوں نے مل کر امیر اور طاقتور لوگوں کی خفیہ سرمایہ کاری کے بارے میں پیراڈائز پیپرس کے نام سے جو تازہ دھماکہ کیا ہے ،وہ پنامہ دھماکہ سے ایک قدم آگے ہے۔ اور اس میں اشخاص سے زیادہ کارپوریٹ پر زور دینے سے حکومتوں کو جانچ پڑتال کرنے، کارروائی کرنے میں آسانی ہوگی۔ پیراڈائز پیپرس کی شکل میں جو کچھ ہمارے سامنے آیا ہے اس میں اگرچہ سچائی ہے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے لوگ ہیں جو ٹیکس بچانے کے لئے ان ملکوں کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں یا وہاں کمپنیاں بنا لیتے ہیں جہاں یا تو ٹیکس نہیں لگتا یا معمولی ٹیکس ہی لگتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو غیر اخلاقی تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن انہیں قانون کی خلاف ورزی کی ہی ہے ایسا کہنا ذرا مشکل ہے۔ اس رپورٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ کچھ غیر قانونی اور کالی کمائی سے وابستہ کمپنیاں ریگولیٹری اداروں سے نظربچا کر اپنے سرمائے کو دوسرے ملکوں میں شیئر لینے کے لئے استعمال کرتی ہیںیا انہیں بیچ دیتی ہیں۔ دستاویزات بتاتے ہیں کہ وجے مالیا نے کیسے یونائٹڈ اسپریبرس لمیٹڈ انڈیا کو 2012 میں ڈیانیو گروپ کو بیچ دیا تھا اور اس طرح انہوں نے اپنا پیسہ ان مقامات پر بھیجا جہاں پر ٹیکس سے چھوٹ ہے۔ ویسے پیراڈائز پیپرس کو بھی پنامہ پیپرس کی جانچ کررہی بڑی ایجنسی گروپ (سی بی ٹی ڈی) کو اس کی جانچ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ یہ سینٹرل ایکسائز ٹیکس بورڈ کی سربراہی والا گروپ ہے جس میں سی ٹی بی ٹی کے دوسرے افسران، انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ ، ریزرو بینک اور مالیاتی خفیہ یونٹ کے نمائندے شامل ہیں۔ تازہ پیپرس میں دنیا بھر کی مختلف سیکٹروں کی ہستیوں کے ساتھ 714 ہندوستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ اس میں کسی معاملے کی پوری تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ بھارت نے کالا دھن روکنے کیلئے کئی ایسے ملکوں سے معاہدہ کررکھا ہے جہاں پر ٹیکس کی شرحیں کم ہیں۔ اس لئے وہاں کی کمپنیاں اپنے سرٹیفکیٹ دکھا کر یہاں ٹیکس سے بچ جاتی ہیں۔ دوسری طرف ٹیکس سے پوری طرح بچنے کو روکنے کے لئے سخت قانون بھی ہے جسے 2012 میں اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کی ناکام کوشش کے بعد 2017 میں قانونی شکل دی جاسکی۔ اس کے باوجود ان قوانین کی کتنی تعمیل ایمانداری اور شفافیت کے مفاد میں ہورہی ہے اور کتنے مفادی اس کی تحقیقات اور اس پر کارروائی کی چنوتی سے متعلق سرکاروں کے لئے ایک چنوتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟