نوٹ بندی کا ایک سال :کیا کھویا کیا پایا

8 نومبر 2016ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے درمیانی رات سے 500 اور 1000 کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پی ایم مودی نے مشکل جھیلتے لوگوں کو بھروسہ دلایا کہ 50 دنوں کی دقت کے بعد ایک نیا بھارت بنے گا۔ لوگوں نے اسے حمایت بھی دی لیکن کیا نوٹ بندی سے جو توقعات سرکار کوتھیں اور عام جنتا نے امیدیں باندھیں اس پر یہ فیصلہ کھرا اترا؟ نوٹ بندی کا ایک سال پورا ہورہا ہے چلئے اس میں کارناموں اور خامیوں پر ایک نظر ڈالیں۔ نوٹ بندی کے بعد ریزرو بینک نے لمبے انتظار کے بعد جب اعدادو شمار جاری کیا تو پتہ لگا کہ ساری رقم بینکنگ سسٹم میں لوٹی ۔ یہ سرکار کی توقع کے برعکس تھا لیکن نوٹ بندی سے کم سے کم زیادہ کرنسی سسٹم میں لوٹنے کا فائدہ ہوا۔ اب سرکاراس رقم کو نئے سرے سے ٹریک کر سکتی ہے۔ سرکارکا دعوی رہا کہ نوٹ بندی کے سبب بلیک منی اور کرپشن پر روک لگی۔ اس فیصلے کے سبب سرکار کا دعوی ہے کہ ٹیرر فنڈنگ میں روک لگی ہے۔ بیشک یہ کچھ حد تک صحیح ہوگا لیکن آتنک واد پہلے سے زیادہ مشتعل ہوا۔ پچھلے ایک سال میں جتنے ہمارے جوان مرے ہیں اتنے پہلے کسی سال میں نہیں مرے۔ جہاں تک کرپشن کا سوال ہے نہ تو ان میں کمی آئی ہے اور نہ ہی وہ دور ہوسکا۔ اس کا خاکہ ضرور بدل گیا ہے۔ دراصل یہ نوٹ بندی نہیں تھی یہ کرنسی بدلنے کی اسکیم تھی ۔ لوگوں نے اپنی کالی کمائی جو پرانے نوٹوں میں دبی تھی اسے نئے نوٹوں میں بدل لیا اور آج بھی بلیک اکنومی پھل پھول رہی ہے۔ نوٹ بندی کا ایک بڑا اثر بیروزگاری پر پڑا۔ جے ڈی یو کے سینئر لیڈر شرد یادو نے حال ہی میں کہا کہ نوٹ بندی کے سبب چھوٹی صنعتیں بند ہونے سے دیش میں تین کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے اور جی ڈی پی میں 2 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ شرد یادو نے کہا کہ نوٹ بندی کے اعلان کا دن 8 نومبر ’سیاہ دن ‘ کے برابر تھا۔ وہ دن بھی ہم کبھی نہیں بھول سکتے جب 100 سے زیادہ لوگ اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں انتظار کے بعد دم توڑ گئے۔ نوٹ بندی کا اثر ابھی بھی جاری ہے۔ اے ٹی ایم اور بینکوں کی لائن میں لگنے والے دھنا سیٹھ ہی نہیں تھے بلکہ چھوٹے طبقے کے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی محنت سے کمایا روپیہ کسی صورتحال کے لئے بچا کررکھا تھا۔ دھنا سیٹھوں نے تو اپنا کالہ دھن پہلے ہی کھپالیا تھا یا بدلوا لیا تھا۔ نوٹ بندی کے بعد جی ڈی پی گروتھ 6 فیصدی سے نیچے آگیا۔ اس طرح اقتصادی اضافہ کو نوٹ بندی کے فیصلے میں ضرور نقصان پہنچایا اور ابھی تک اس کا اثر دیکھا جارہا ہے۔ حالانکہ سرکار کا دعوی ہے کہ نوٹ بندی کے بعد جو منفی اثر تھا وہ ایک سال بعد ختم ہوچکا ہے۔ اور آنے والے دن بہتر ہونے والے ہیں، اچھے دن آنے والے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟