داغی نیتاؤں کیلئے بنیں فاسٹ ٹریک عدالتیں

سپریم کورٹ نے سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کیلئے مرکزی سرکار سے خصوصی عدالتیں ،اسپیشل عدالتیں بنانے کی وکالت کا خیر مقدم کیاہے۔عدالت نے مرکزی سرکار سے کہا ہے کہ وہ 13 دسمبر تک عدالت کو بتائے کہ دیش بھر میں اس طرح کی کتنی فاسٹ ٹریک عدالت کب تک بنائی جائیں گی اور ان پرکتنے پیسے خرچ ہوں گے؟ مرکز کو چھ ہفتے میں جواب دینا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے قصوروار لیڈروں پر تاحیات پابندی لگانے کیلئے بھاجپا نیتا اشونی اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی پر 2014 تک درج 1581 مقدمات کی تفصیل بھی طلب کی ہے۔ اس کے علاوہ 2014 سے2017 کے درمیان لیڈروں کے خلاف دائر مجرمانہ معاملوں اور ان کے نپٹارے کے بارے میں بھی جانکاری مانگی ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 13 دسمبر کو ہوگی۔ جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے بدھوار کو مرکز اور متعلقہ اتھارٹی کو یہ بتانے کو کہا کہ 1581 ملزم عوامی نمائندوں کے مقدموں کا کیا ہوا؟ ان میں کتنے معاملوں کا نپٹارہ ایک برس میں ہوا؟ معلوم ہو کہ 18 مارچ 2014 کو سپریم کورٹ نے ایسے معاملوں کا نپٹارہ ایک سال کے اندر کرنے کی ہدایت دی تھی ساتھ ہی بنچ نے یہ بھی پوچھا کہ کتنے معاملوں میں سزا ہوئی اور کتنے معاملوں میں ملزم بری ہوئے؟ سرکار کو یہ بھی بتانے کے لئے کہا گیا ہے سال 2014 سے 2017 کے درمیان کتنے ایسے نئے معاملے آئے ہیں۔ ایم پی اور ایم ایل اے کے خلاف التوا مقدموں کو لیکر سپریم کورٹ نے پایا کہ دستیاب اعدادو شمار کے تحت 2014 میں 1581 ایم پی و ممبران اسمبلی کے خلاف ساڑھے تین ہزار مجرمانہ معاملے زیر التوا ہیں۔ دیش میں قریب 17 ہزار نچلی عدالتیں ہیں ، ہر عدالت میں اوسطاً 4200 مقدمات التوا میں ہیں۔ بڑی عدالت کے اس حکم کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اگر اس سمت میں کوئی ٹھوس پہل ہوگی تو وہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے بہتر ہی ہوگی۔ سماعت کے دوران مرکزی سرکار نے ڈویژن بنچ کو بتایا کہ قصوروار ٹھہرائے گئے عوام کے نمائندوں کو تاحیات نا اہل قرار دینے سے متعلق چناؤ کمیشن اور آئینی کمیشن کی سفارشوں پر غور کیا جارہا ہے۔ غور طلب ہے کہ ہندوستانی سیاست میں لمبے عرصے سے جرائم پیشہ کا بول بالا رہا ہے۔ تمام معاملوں میں سیاستدانوں کو بھی سزا ملی ہے لیکن ہوتا یہی ہے کہ وہ اونچی عدالت میں اپیل کرکے حکم کو التوا میں ڈلوا لیتے ہیں اور پھر چناؤ لڑنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس لئے عرصے سے اس پر غور چل رہا ہے کہ کیونکہ سزا یافتہ مجرموں کو تاحیات چناؤ لڑنے سے روک دیا جائے؟ تلخ حقیقت تو یہ ہی ہے کہ ہماری سیاسی مشینری آج بھی داغی لیڈروں سے بھری ہوئی ہے، جو پورے سیاسی عمل کو متاثر کر چلا رہے ہیں۔ ا س کی ایک بڑی وجہ نیتاؤں کے خلاف معاملوں کے نپٹارے میں ہوتی دیری ہے۔ ان پر مقدمے20-20 سال تک التوا میں رہتے ہیں اور کوئی نتیجہ آنے سے پہلے ہی وہ اپنی پوری سیاسی پاری کھیل جاتے ہیں اس وجہ سے آج ہماری پوری مشینری ایک داغی مشینری بن کر رہ گئی ہے۔ دیش میں کرپشن کی ایک بڑی وجہ ہے یہ داغی لیڈر اور ان کے کرپٹ طور طریقے۔ اس بیماری سے نجات پائی جا سکتی ہے ملزم سیاستداں کے خلاف چل رہے مقدمے جلد سے جلد اپنے مقام پر پہنچیں اور قصوروار پائے جانے پر اسے زندگی بھر چناؤ نہ لڑنے دیا جائے۔ کچھ برسوں سے چناؤ کمیشن کی سختی کے چلتے بوتھ قبضے جیسی برائیوں سے تو نجات مل گئی ہے، لیکن دبنگیوں اور جرائم پیشہ کا حوصلہ آج بھی پست نہیں ہوا ہے۔ اس کے لئے ہماری سیاسی پارٹیاں بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ کیوں یہ ایسے داغیوں کو ٹکٹ دیتے ہیں؟ کیا صرف چناؤ جیتنا ہی سب سے زیادہ اہم ہے؟ اگر داغیوں کو ٹکٹ نہ دیا جائے تو بھی اس برننگ اشو پر لگام لگ سکتی ہے، لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!