اس طرح سوشل میڈیا نے لگائی کاویری پانی میں آگ

کاویری کے پانی نے ایک بار پھر آگ لگادی ہے۔ تامل نوجوان کو سوشل میڈیا میں ایک کمینٹ سے شروع ہوا ٹکراؤ پیر کو پرتشدد ہوگیا۔ کرناٹک میں تمل نمبر کی اور تاملناڈو میں کرناٹک نمبر کی 105 سے زیادہ گاڑیاں آگ کے حوالے کردی گئیں۔50 سے55 دوکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ اس دوران فائرننگ میں ایک شخص کی موت ہوگئی۔ کرناٹک کے سی ایم سدارمیا کے گھر پر لوگوں نے پتھر پھینکے۔ الگ الگ مقامات پر 200 سے زیادہ لوگ حراست میں لئے گئے۔ بنگلورو سمیت کئی شہروں میں اسکول، کالج بند کردئے گئے۔ کاویری آبی تنازعے کو لیکر ہوئے آندولن کے سبب تقریباً 25 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔ تازہ جھگڑا سپریم کورٹ کے اس حکم کے احتجاج میں ہے جس کے تحت تاملناڈو کو 12 ہزار کیوسک پانی (پہلے 15 ہزار کیوسک دینے کی ہدایت تھی) 20 ستمبر تک روزانہ دینا ہے۔اس پر کرناٹک میں لوگوں نے سڑکوں پر اتر کر تمل بولنے والے افراد کی جان مال پر حملے کئے اس کو دیکھتے ہوئے 1991ء کے نسلی تشدد کی یاد تازہ ہوگئی۔ تین دن میں ہی تملوں کی سینکڑوں کروڑ کی املاک کو تباہ کردیاگیا جبکہ سپریم کورٹ نے تو اپنے تازہ حکم میں15 ہزار کیوسک پانی کی جگہ 12 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کو کہا تھا اس سے کرناٹک کے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہوجانا چاہئے تھا۔ اس کے باوجود اگر بنگلورو میں کنڑ حمایتیوں نے گاڑیوں میں آگ لگائی اور چنئی میں کنڑلوگوں کے ہوٹلوں پر حملے کئے تو ظاہر ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے جنتا کے درمیان ضرور غلط فہمی پیدا کی ہے۔ یہ عجیب غریب حالات اس وقت ہوئے جب کاویری ندی کے آس پاس بسے دونوں ریاستوں کے درمیان گہرے اور خوشگوار نسلی اور سماجی، ثقافتی، اقتصادی رشتے ہیں۔ان میں روٹی ۔بیٹی کا تعلق ہے۔ اس یا اس پار پیدا پڑھے بڑے لوگ اپنے کام کا علاقہ بتاتے رہے ہیں پھر بھی پانی کے مسئلے پر جھگڑے کی آگ جب تک دہکتی رہے گی تو اس رشتے کو جھلسا دیتی ہے۔ 
یہ تنازعہ 124 سال سے چلا آرہا ہے۔ پیر کو بنگلورو میں ہوئی آتشزنی اور تشدد کا آغاز ایک فیس بک پوسٹ سے شروع ہوا۔ 23 سالہ ایک شخص نے فیس بک پر کنڑ اور تمل اداکاروں کا موازنہ کرتے ہوئے ایک پوسٹ کیا تھا۔ لڑکے نے ان کنڑ اداکاروں کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا جنہوں نے جمعہ کو کرناٹک بند کی اپیل کی اور حمایت کی تھی۔ ساؤتھ بنگلورو کے گری نگر کے کچھ لڑکوں نے آخر کار اس لڑکے کی پہچان شری رام پورا کے جے سنتوش کی نگر میں کی تھی اور اسکی پٹھائی کی اور اس سے معافی منگوائی۔ لڑکوں نے ایتوار کو سنتوش کا معافی مانگتے ہوئے ویڈیو بھی بنایا اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔اس ویڈیو سے تاملناڈو میں غصہ بھڑک گیا تو ایک طرح سے سوشل میڈیا نے بھی کاویری کے پانی پر آگ لگوادی۔ وزیر اعظم کا درد اور نصیحت جائز ہے کہ تشدد کسی مسئلے کا نہ تو حل ہے اور نہ ہی کوئی متبادل۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟