پرسنل لاء بورڈ کی دلیلیں تو حافظ سعید جیسی

ایک مسلم خاتون وکیل نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، بھارتیہ مسلم مہلا آندولن اور حافظ سعید و ان کی تنظیم جماعت الدعوی عرف لشکر طیبہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سبھی کی آئیڈیالوجی ایک ہی ہے۔ اس خاتون وکیل کو سپریم کورٹ نے تین طلاق سے جڑے معاملوں میں دخل دینے کی اجازت دی ہے۔ خاتون وکیل نے تین طلاق کو غیر اسلامی بتایا ہے ۔ معلوم ہوکہ تین طلاق کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں داخل عرضی کو خارج کیا جانا چاہئے۔ عرضی میں جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ جوڈیشیل ریویو کے دائرے میں نہیں آتے۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ پرسنل لاء کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ حلف نامہ میں آگے کہا گیا ہے کہ پرسنل لاء کو سوشل ریفارم کے نام پر دوبارہ نہیں لکھا جاسکتا۔ بورڈ کے مطابق مسلم سماج میں تین طلاق کو چیلنج کرنے والی عرضی سپریم کورٹ کے دائرے سے باہر ہے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کے خلاف اس سے پہلے کئی اور عرضیاں دائر کی گئی ہیں جس میں تین طلاق کو غیر آئینی اور منمانا بتایا گیا ہے۔ اتراکھنڈ کی سائرہ بانو ، جے پور کی ایک دوسری خاتون کی جانب سے عرضی درج کی گئی ہے جس پر سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کر جواب چار ہفتے میں داخل کرنے کو کہا ہے۔ ایک دوسرے معاملے میں سپریم کورٹ کی ڈبل بنچ نے خود نوٹس لیا تھا اور چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ اسپیشل بنچ قائم کریں تاکہ امتیاز کی شکارمسلم خواتین کے معاملے کو دیکھا جاسکے۔ یہ بیحد افسوس کی بات ہے کہ تین طلاق کے معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ آج بھی اپنے پرانے موقف پر قائم ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل اپنے حلف نامہ میں بورڈ نے کہا کہ تین طلاق کا جواز سپریم کورٹ طے نہیں کرسکتا۔ پرسنل لاء بورڈ کوئی قانون نہیں ہے جسے عدالت میں چنوتی دی جائے، بلکہ یہ قرآن سے لیا گیا ہے اور یہ اسلام مذہب سے متعلق مذہبی اشو ہے۔ غور کریں تو ایسی ہی دلیل کئی اور معاملوں میں دی جاتی رہی ہیں۔ مثلاً حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخلے پر چلی آرہی پابندی کے بچاؤ میں۔ کہا جاتارہا ہے کہ یہ پابندی اسلام کے اصولوں پر مبنی ہے اور اس میں دخل دینا مذہبی معاملوں میں دخل دینا مانا جائے گا۔ لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے ان دلیلوں کو مسترد کردیا۔ جیسا کہ اس نے شنی شنگھنا پور مندر کے معاملے میں بھی کیا تھا اور پابندی ہٹانے کا حکم دے کر درگاہ میں مسلم خواتین کے داخلے کا راستہ صاف کردیا تھا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں خاتون وکیل فرح فیض نے داخل اپنے حلف نامہ میں اس شرعی کورٹ پر پوری طرح پابندی لگانے کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ذریعے دیش کی عدلیہ پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور سرکار کو چنوتی دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیش کو بچانے کے لئے آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ اور بھارتیہ مسلم مہلا آندولن جیسی تنظیموں کو ختم کردیا جانا چاہئے کیونکہ ان کی آئیڈیا لوجی حافظ سعید کے برابر ہے۔ قرآن کا سہارا لے کر تین طلاق کا رواج کا بچاؤ نہیں کیا جانا چاہئے۔ دراصل یہ معاملہ مقدس قرآن پا ک کا نہیں بلکہ اس کی الگ الگ تشریحات کا ہے۔مسلم پرسنل لاء میں ترمیم سے نہ تو قرآن کی پاکیزگی پر کوئی آنچ آئے گی اور نہ اسلام کا کوئی نقصان ہوگا۔ مناسب یہی رہے گا کہ معاملے کو ججوں کی زیادہ بڑی بنچ یا آئینی بنچ کو سونپا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!