21 ممبران اسمبلی کی ممبر شپ کو خطرہ،سنکٹ میں آپ

دہلی ہائی کورٹ نے پچھلے مہینے جب اہم فیصلے میں یہ واضح کیا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ ہی دہلی کے ایڈمنسٹریٹو چیف ہیں، تبھی صاف ہوگیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کی اروند کیجریوال سرکار کے ایسے ہر فیصلے پر بجلی گر سکتی ہے جو اس نے لیفٹیننٹ گورنر کی اجازت کے بغیر لیا ہے۔ اس لئے ہائی کورٹ کے ذریعے 21 پارلیمانی سکریٹریوں کی تقرری منسوخ کرنے کے تازہ فیصلے پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اس فیصلے نے بہرحال عام آدمی پارٹی کو مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے۔ دہلی سرکار کے 21 پارلیمانی سکریٹریوں (ممبران اسمبلی) کے سامنے اب ممبر شپ کا خطرہ لگاتار منڈراتا جارہا ہے۔ ان کی ممبر شپ کو لیکر سینٹرل چناؤ کمیشن نے فیصلہ ریزرو رکھا ہوا ہے۔ اب کمیشن کو ہائی کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینا ہے۔ دہلی سرکار کے ان21 ممبران اسمبلی (پارلیمانی سکریٹریوں) کا معاملہ پچھلے 56 سال سے تنازعوں میں پھنسا ہوا ہے۔ فائدے کے عہدے میں پھنسے ان ممبران اسمبلی کو بچانے کے لئے دہلی سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ معاملہ دوہرے فائدے کا ہے۔ آئین کی دفعہ 102(1)(a) کے تحت پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی ایسے کسی عہدے پر نہیں رہ سکتا جس پر رہتے ہوئے اسے تنخواہ بھتے ملتے ہوں۔ آئین کے سیکشن 191(1)(a) اور عوامی نمائندگان ایکٹ کی دفعہ 9(a) کے تحت ایم پی اور ممبر اسمبلی رہتے ہوئے کوئی بھی فائدے کے کسی دوسرے عہدے پر نہیں رہ سکتا ہے۔ آئینی ماہر سبھاش کشیپ کہتے ہیں کہ پارلیمانی سکریٹریوں کی تقرری میں دہلی سرکار نے نجیب جنگ سے منظوری نہیں لی تھی اس لئے ہائی کورٹ نے تقرری منسوخ کردی۔ حالانکہ ابھی ہائی کورٹ اور چناؤ کمیشن کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمانی سکریٹری عہدہ فائدے کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں؟ کشیپ نے کہا آئین کوجتنا میں نے سمجھا ہے اس حساب سے یہ عہدہ فائدے کے دائرے میں آتا ہے لیکن اس طرح کے معاملوں میں فوری طور پر ترمیم کو قانونی منظوری نہیں ہے۔ میری رائے میں ان 21 ممبران اسمبلی کی ممبر شپ کو پورا خطرہ ہے۔ اصل میں پچھلے7 مارچ کو دہلی سرکار نے اپنے محکموں کا کام آسان کرنے کیلئے اپنے 21 ممبران اسمبلی کو ان محکموں سے جوڑ کر انہیں پارلیمانی سکریٹری بنایا تھا۔ سرکار کو لگا کہ معاملہ گڑ بڑ نہ ہوجائے اس کے لئے وہ اسمبلی میں بل لائی تھی اور پارلیمانی سکریٹریوں کو فائدے کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ پچھلے سال حکومت نے اپنے اس بل کو پاس کرانے کے لئے راشٹرپتی کے پاس بھیجا تھا۔ اس بارے میں راشٹرپتی نے چناؤ کمیشن سے صلاح مانگی ، لیکن اس سال جون ماہ میں سرکار کو بل بیرنگ لوٹا دیاگیا۔ اس معاملہ کو لیکر کمیشن مسلسل سماعت کررہا ہے اور پچھلے ماہ اس نے اپنا فیصلہ ریزرو کرلیا ہے۔ کمیشن اب مفصل رپورٹ بنا کر راشٹرپتی کو بھیجے گا۔ سکریٹریوں کی ممبر شپ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے گا۔ ان کی ممبر شپ رہے گی یا جائے گی اس پر فیصلہ راشٹرپتی ہی لیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!