بدفعلی کے30فیصد معاملے ’’لو ان ریلیشن شپ‘‘سے جڑے ہیں

راجدھانی دہلی میں ہر مہینے اوسطاً 50 سے زیادہ بد فعلی کے معاملے درج ہورہے ہیں اور پریشان دہلی پولیس نے ان معاملوں کی اصلیت سامنے لانے اور ان پر لگام لگانے کے لئے ایک خاص رپورٹ تیار ہی ہے۔ پیش ہے اس رپورٹ کے اہم حصے۔ لو ان ریلیشن میں رہنے والی عورتوں کے ذریعے بدفعلی کے معاملے درج کرانے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سال دیش کی راجدھانی دہلی میں تقریباً 30فیصدی معاملے لو ان ریلیشن شپ سے جڑے ہیں۔دہلی پولیس کی اس رپورٹ کے مطابق سال2014ء میں لو ان ریلیشن میں رہنے والے کے خلاف بدفعلی کا فیصد قریب17 فیصدی تھا لیکن سال2015ء میں یہ بڑھ کر 25.5 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس سال تو اگست تک ہی یہ تعداد 30.21 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ کچھ معاملوں میں کئی برس تک ساتھ رہنے کے بعد عورت نے اپنے ساتھی پر بدفعلی کا مقدمہ درج کرادیا۔ نیہال بہار میں 5 اکتوبر 2013 ء کو ایک لڑکی نے فیز بک پر دوستی کے بعد لڑکے کے ساتھ لو ان ریلیشن میں رہنے کے بعد شادی پر رضامندی نہ بننے پر بدفعلی اور دھوکہ دھڑی کا معاملہ درج کرادیا۔ مگر کورٹ میں لڑکی بیان سے پلٹ گئی اور کہا کہ ایک واقف کار کے کہنے پر میں نے الزام لگائے تھے۔ مالویہ نگر میں13 مارچ 2013ء کو مینجمنٹ کی ایک طالبہ نے اپنے ساتھی پر ریپ کا مقدمہ درج کرایا حالانکہ بعد میں لڑکے کے رشتے داروں کو رشتے کے قبول کرنے کے بعد معاملہ واپس لے لیا لیکن پٹنہ بہار میں بدفعلی کے معاملوں میں50فیصد معاملے لو ان ریلیشن و شادی سے انکار کے ہیں۔ سٹی ایم پی چندن کشواہا نے کہا کہ شہری علاقوں میں لو ان ریلیشن کے معاملے زیادہ ہیں۔ دیہات میں اب بھی ایسے معاملے کم دیکھے جاتے ہیں۔ زیادہ معاملوں میں اپنے ہی ملزم ہوتے ہیں۔40فیصدی ملزم دوست یا فیملی فرینڈ ہوتے ہیں جبکہ دیگر واقف کار 27 فیصدی ،پڑوسی 15 فیصدی، رشتے دار 11 فیصدی اس کے علاوہ نا واقف کار4 فیصدی اور ساتھی 3فیصدی ہوتے ہیں۔ 23 فیصدی شادی شدہ عورتوں کے ساتھ بدفعلی ہوتی ہے۔77فیصدی غیر شادی شدہ عورتوں کے ذریعے ،33فیصدی بڑے طبقے سے متعلق ہوتی ہیں۔38 فیصدی درمیانہ طبقے کی عورتیں ،62 فیصدی مختلف طبقے کی عورتیں ،75 فیصدی معاملوں میں ثبوتوں کی کمی کے سبب ملزم چھوٹ جاتے ہیں صرف 17 فیصدی معاملوں میں ہی الزام ثابت ہو پاتے ہیں۔ 28 فیصدی معاملوں میں الزام ثابت کرنے کا اوسط ہے۔ فورینسک ثبوت کی کمی ہے۔ دیری کے چلتے ثبوت ضائع ہوجاتے ہیں۔ شکایت کنندہ کا بیان سے پلٹنا یا پھر کورٹ میں راضی نامہ ہونے کی وجہ سے معاملے ختم ہوجاتے ہیں لیکن تشویش کا باعث یہ ہے کہ سماج میں بڑھتے لو ان ریلیشن شپ کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟