سپا میں رسہ کشی کتنی فطری کتنی ڈرامہ بازی

اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے جس طرح سے غیر قانونی کھدان اور کرپشن کے الزامات سے گھرے اپنے دو کیبنٹ وزیروں گائتری پرجاپتی اور راج کشور سنگھ کو برخاست کیا تب یہ اندازہ شاید ہی کسی کو تھا کہ سماجوادی پارٹی کے اندر چھڑی خانہ جنگی کتنی آگے بڑھ جائے گی؟وزرا کو ہٹانے کے پیچھے الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے صوبے میں ناجائز کھدان کی سی بی آئی جانچ پر روک لگانے سے انکار بیشک ایک بڑا سبب رہا ہو لیکن ان کے اس قدم کے سیاسی نفع نقصانات بھی تھے۔ وہ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں 2017ء کا اسمبلی چناؤ جیتنا ہے توعوام کے سامنے ایک صاف ستھری ،ایماندار ساکھ پیش کرنی ہوگی۔ اس لئے کسی بھی داغی وزیر کو وہ چناؤ میں نہیں اتارنا چاہتے۔ اس سے پہلے دبنگ مختار انصاری کی جماعت قومی ایکتا دل کا سماجوادی پارٹی میں انضمام بھی ان کے احتجاج کے سبب نہیں ہوسکا۔ انتظامیہ پر اپنی پکڑ مضبوط کرنے کے مقصد سے اکھلیش نے چیف سکریٹری کو بدل ڈالا۔ معاملہ یہیں تک نہیں رکا۔ صوبہ میں اقتدار کے کئی مرکز کے عام تصور کو بدلنے کیلئے چاچاؤں کے اثر سے انتظامیہ کو چست کرنے کے لئے اکھلیش نے چاچا شیو پال یادو کے اہم محکمے واپس لیتے ہوئے ان کا قد چھوٹا کردیا۔ سماجوادی پارٹی اور سرکار کی اس شہ مات کے کھیل میں پارٹی چیف ملائم سنگھ نے منگلوار کی شام غیر متوقع فیصلہ لیتے ہوئے وزیر اعلی اکھلیش یادو کی جگہ سینچائی اور پبلک ورکس وزیر شیو پال سنگھ یادو کو پارٹی کا پردیش پردھان بنادیا۔ شیو پال یادو کو پردیش پردھان بنانے کے حکم پرقومی جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کے دستخط ہیں۔ شیو پال کو انچارج کا یہ عہدہ پارٹی و خاندان میں توازن بنانے کے لئے سونپا گیا تھا۔ اکھلیش کا خیال ہے کہ آنے والے اسمبلی چناؤ محض ذات پات کی سیاست کے دم پر نہیں جیتے جاسکتے اس لئے وہ ترقی کے ساتھ سرکار کی ساکھ کو لیکر بھی کافی چوکس ہیں اور وہ اس تصور سے بھی نجات چاہتے ہیں کہ صوبے میں اقتدار کے کئی مرکز ہیں۔ اس کے لئے چاچاؤں کے اثر سے نجات کا سندیش دینا ان کے لئے ضروری لگتا ہے۔ ملائم سنگھ خاندان میں اقتدارکی لڑائی نئی نہیں ہے ان کے پہلے دبنگی مختار انصاری کی پارٹی کے سپا میں انضمام کو لیکر اکھلیش اور شیوپال میں ٹھن گئی تھی تب ملائم سنگھ بیچ بچاؤکرتے نظر آئے لیکن یہ صاف تھا کہ وہ خود یہ چاہ رہے تھے کہ مختار انصاری کی پارٹی کا سپا میں انضمام ہو۔ ملائم سنگھ یادو کے خاندان میں تیز ہوتی اقتدار کی لڑائی پریوار واد کو ہوا دینے کا نتیجہ ہے۔ پریوار واد کو فروغ دینے والی پارٹیوں میں ایسی اقتدار کی لڑائی ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ شیو سینا ، انڈین نیشنل لوک دل، اکالی دل و ڈی ایم کے پریوار کے ممبران کے درمیان بھی اتنی سیاسی بالادستی کو لیکر وقتاً فوقتاً رسہ کشی جاری رہتی ہے اور اس نے اب ایک سنگین رخ اختیار بھی کرلیا ہے۔ کچھ پارٹی تو چٹ پٹ کی بھی شکار ہوئی ہیں۔ پریوار واد کو فروغ دینے والی سیاسی پارٹیاں عام طور پر نجی کمپنی کے طور پر چلتی ہیں۔ اندرونی جمہوریت کی کمی میں ایسی پارٹیوں میں پردھان کا ہی آخری فیصلہ ہوتا ہے لیکن کئی بار ان کے فیصلے نئی پیڑھی کو راس نہیں آتے۔ اہم عہدوں کے لئے پریوار کے ممبران میں ٹکراؤ ہوجاتا ہے ۔ یہ ٹکراؤ جنتا کے سامنے ہوجاتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان پارٹی کو ہوتا ہے۔ سماجوادی کنبے میں تازہ رسہ کشی سامنے آنے سے یوپی کے سارے سیاسی اشو پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔ بسپا چیف مایاوتی نے سپا سرکار میں چل رہی اٹھا پٹخ کو ڈرامہ بازی بتایا۔ انہوں نے کہا اسمبلی عام چناؤ سے ٹھیک پہلے اس طرح کی کارروائیاں ووٹروں کو بہکانے کی کوشش ہے۔ صوبے میں اور پیچیدہ اشو سے جنتا کی توجہ ہٹانے کی ایک قواعد ہے۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بنیادی اشو سے توجہ ہٹانے کو اسے سپا کا ناٹک قراردیا ہے جبکہ وزیر اعلی اکھلیش یادو نے پریوار ایک ہے ،جھگڑا سرکار میں ہے اور اگر کوئی باہری شخص مداخلت کرے گا تو پارٹی اور سرکار کیسے چلے گی، کہہ کر بحث کو آگے بڑھادیا ہے۔ سوال اٹھنا فطری ہے کہ اکھلیش کسے باہری بتا رہے ہیں؟ کیا ان کے نشانے پر امر سنگھ تو نہیں ہیں؟ اشاروں سے تو یہ بات واضح ہے اور جب خود امرسنگھ نے باہری لفظ پر جواب دیا تو اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ اشو یہ ہے کہ سپا کنبے میں جھگڑا فطری ہے یا اس کی کہانی لکھی گئی ہے، کیا یہ اکھلیش یادو کی امیج بتانے کی کوشش ہے، کیا سپا سرکار میں کرپشن قانون و نظام اور بڑھتے جرائم سے توجہ ہٹا کر انہیں مقبول اور وکاس پروش ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اپوزیشن پارٹی تو کم سے کم یہی کررہی ہیں لیکن سپا کا ایک طبقہ اس جھگڑے اور رسہ کشی کے لئے امر سنگھ کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ امر سنگھ کی واپسی کے بعد سے ہی اندر خانے چل رہی لڑائی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ امر سنگھ کو شیو پال یادو کا قریبی مانا جاتا ہے بلا شبہ چاہے ملائم سنگھ ہوں یا شیو پال یا پھر اکھلیش ہوں سبھی کا نشانہ سپا کو پھر سے اقتدار میں لانا ہی ہوگا لیکن ممکن ہے اس پر ایک رائے نہیں کے پارٹی کو کامیابی کی شکل میں کیسے لایا جائے۔ اگر اکھلیش یادو سپا کا چہرہ ہیں اور انہی کے نام پر ووٹ مانگے جانے ہیں تو پھر یہ ضروری ہے کہ انہیں اپنے طریقے سے سرکار و انتظامیہ چلانے کی آزادی ہو۔ وزرا کے انتخاب سے لیکر افسروں کی تقرری تک میں انہیں کھولی چھوٹ دینی ہوگی۔ خاندان کے دیگر ممبران کو اس میں دخل اندازی نہ کرنے کی سخت ہدایت پارٹی چیف ملائم سنگھ کو دینی پڑے گی نہیں تو وہی ہوگا کہ ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟