بہار انتخابات عام انتخابات حصہ ۔2

نریندر مودی اور بی جے پی اتحاد کو بہار میں شکست دینے کے لئے نتیش کامہاگٹھبندھن بن گیا ہے. بہار میں آر جے ڈی۔جے ڈی یو کانگریس مہاگٹھبندھن نے سیٹوں کا تال میل کر انتخابی بساط بچھا دی ہے. بہار میں پورے ملک کی نظر لگی ہوئی ہے اور بہار انتخابات کے نتائج ملک کے سیاسی مستقبل کی حالت سمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے.مہاگٹھبندھن میں ان پارٹیوں کے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے کا راستہ اب مکمل طور پر صاف ہو چکا ہے. جد (یو) اور آر جے ڈی کے رہنماؤں نے یہ فارمولا طے کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا ہے کہ باہمی تنازعات کے لئے ہر ممکن حد تک کم سے کم جگہ چھوڑی جائے. اس فارمولے کے تحت جد (یو) اور آر جے ڈی 100۔100 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے اور کانگریس کو 40 سیٹیں ملیں گی. اس فارمولے کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کو برابر برابر سیٹیں ملیں گی اور کسی کو یہ ڈر نہیں ہو گا کہ دوسری پارٹی اس پر غلبہ ہو جائے گا. صرف 100 سیٹوں پر لڑنے سے یہ بھی یقینی ہو گیا ہے کہ اگر مہاگٹھبندھن کو اکثریت حاصل ہے تو کوئی پارٹی اتنی طاقتور نہیں ہو سکتی کہ دسری پارٹی کو دھول چٹا سکے. بہار میں مہاگٹھبندھن کی بنیاد رکھے جانے کے دن سے ہی ساتھی جنتا دل (یو) اور اس کے رہنما وزیر اعلی نتیش کمار پر تمام طرح کا دباؤ بنانے کے کھیل رچ رہے راشٹریہ جنتا دل سپمو لالو پساد یادو کی ایک نہ چلی اور سیٹ تقسیم میں انہیں نتیش کے سامنے مکمل لگن کی کرنسی میں دیکھا گیا. جی ہاں، ان دونوں کی شہ مات کے کھیل میں کانگریس کی ضرور لاٹری لگ گئی ہے جس سے اس کی موجودہ حیثیت سے زیادہ سیٹیں لڑنے کے لئے مل رہی ہیں. دوسری طرف بی جے پی کو لگتا ہے کہ مودی لہر کے سہارے وہ بہار میں بھی بازی مار لے گی. اپوزیشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں شروع ہوئی اس بی جے پی مخالف مہم اب کچھ کچھ جڑ پکڑنے لگی ہے اور بہار میں یہ اپنا معجزہ ضرور دکھائے گی. بہر حال بی جے پی کے خلاف بنے سیکولر گٹھبندھن کی ایک چھوٹی سی چوک بھی سیٹ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی سامنے آ گئی ہے. شرد پوار کی این سی پی کا بہار میں کوئی خاص وجود تو نہیں ہے پر پھر بھی اس گٹھبندھن مذاکرات میں عزت سے بٹھائے جانے کی امید تھی. اس کے لئے بغیر بات چیت کے ہی تین نشستیں چھوڑی گئیں لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں ہے اور گٹھبندھن سے الگ ہو کر انتخابات لڑنے کے لئے تال بٹھا رہی ہے. س بار جتن رام ماجھی اور پپو یادو جیسے لیڈر بھی میدان میں ہیں جو کسی بھی خیمے کا کھیل بگاڑ سکتے ہیں. این ڈی اے کی سب سے بڑا چیلنج اپنے اتحادیوں کے عزائم پر کنٹرول لگانا ہے. اوپیندر کشواہا اور رام ولاس پاسوان سے نشستوں کی ڈیل کرنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی نظر بھی وزیر اعلی کے عہدے پر ہے اور تو اور خود بی جے پی میں کم از کم پانچ لیڈر اس کرسی کے فراق میں ہیں. یہ انتخابات تمام پارٹیوں کے لئے بڑا اہم ہو گیا ہے. بی جے پی نے تاہم داؤ نریندر مودی کی مقبولیت اور لہر پر لگایا ہے پر اس سے انکار وہ بھی نہیں کر سکتی کہ گزشتہ چند ماہ میں مودی کا گراف گرا ہے اور شتروگھن سنہا جیسے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کا بھی اثر تو ہوگا ہی. نتیش کمار کی مستقبل کی سیاست ان کے تیسری بار وزیر اعلی بننے پر منحصر ہے. لالو پساد یادو اور راشٹریہ جنتا دل کے لیے دس سال بہار کی اقتدار سے باہر رہتے ہو گئے ہیں. ان کا اقتدار میں آنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ نہیں جیتتے تو ان اور ان کی پارٹی کو بہار میں سیاسی مستقبل چوپٹ ہونے کا خطرہ ہو جائے گا. دونوں ہی اتحاد کو اپنی اپنی پارٹی کے کارکنوں میں تال میل بٹھانا بھی کم چیلنج نہیں ہے. ایسے میں اس انتخاب کو عام پاٹی الیکشن پارٹ۔ 2 کہنا غلط نہیں ہو گا.

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟