اروند کیجریوال کے الزامات کی توثیق سی اے جی رپورٹ

عام آدمی پارٹی کے کنوینر و دہلی کے وزیر اعلی آج ضرور خوش ہوں گے کہ وہ جو الزام دہلی میں بجلی کی سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر لگایا کرتے تھے ان کی توثیق سی اے جی نے کردی ہے۔ راجدھانی میں بجلی تقسیم کررہیں بجلی کمپنیوں نے پچھلے 12 سالوں میں گراہکوں سے 8 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ وصولی کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے یہ الزام سی اے جی کی ایک انگریزی اخبار میں رپورٹ ڈرافٹ (آؤٹ ہونے) چھپنے کے بعد لگایا ہے۔ ڈسکام پر جاری رپورٹ میں سی اے جی نے کہا ہے کہ دہلی سیکٹر کی تین پرائیویٹ بجلی کمپنیوں نے گراہکوں سے بقایا وصولی کی رقم کو بڑھا کر8 ہزار کروڑ روپے پیش کیا ہے۔ ڈسکام پر جاری رپورٹ میں سی اے جی نے کہا ہے کہ تین پرائیویٹ بجلی کمپنیوں بی ایس ای ایس، جمنا پاور لمیٹڈ اور بی سی سی ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ (انل انبانی ، ریلائنس گروپ کی کمپنیاں) اور ٹاڈا پاور دہلی ڈسٹریبیوشن لمیٹڈ نے صارفین سے متعلقہ اعدادو شمار میں چھیڑ چھاڑ کی اور فروختگی کے ڈرافٹ کو صحیح طرح سے پیش نہیں کیا۔ ساتھ ہی تینوں کمپنیوں نے کئی ایسے فیصلے لئے جو صارفین کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے تھے۔ ایسے فیصلوں میں مہنگی بجلی خریدنا، لاگت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، محصول کو دبانا، بغیر ٹنڈر نکالے ہی دیگر پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کے ساتھ سودے کرنا اور اپنے گروپ کی کمپنیوں کو غلط طریقے سے فائدہ پہنچانا شامل ہے۔ کمپنیوں کے ذریعے کی گئی سب سے بڑی گڑبڑیوں میں ریگولیٹری اثاثے کو بڑھاچڑھا کر بتانا ۔ اس اثاثے سے پہلے یہ ہوا ایسا اندازہ ہوتا ہے۔ جسے صارفین سے وصول کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ دہلی کی سابقہ حکومتیں اپوزیشن اور توانائی محکمے کے حکام کی ملی بھگت سے نجی کمپنیاں پچھلے 12 برسوں سے جنتا کو لوٹ رہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اس معاملے میں دہلی الیٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن (ڈی ای آر سی) کے کردار کو بھی مشتبہ بتایا۔ پارٹی نے اس معاملے میں بجلی کمپنیوں کے مالکوں سے اس گڑ بڑ گھوٹالے میں شامل حکام اور سیاستدانوں کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج کرنے کی مانگ کی ہے۔ادھر ذرائع کے مطابق دہلی سرکار اس معاملے میں قانونی رائے لے گی اور دہلی ہائی کورٹ سے اپیل کرے گی کہ سی اے جی رپورٹ عام کی جائے۔ رپورٹ عام ہونے کے بعد سرکار اس معاملے میں سخت قدم اٹھا سکتی ہے۔ بتا دیں کہ سی اے جی آڈٹ کے دوران سی اے جی نے کئی بار الزام لگایا تھا کہ بجلی کمپنیاں آڈٹ میں تعاون نہیں دے رہی ہیں جس کی وجہ سے آڈٹ میں دقت آرہی ہے۔کمپنیوں پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ کمپنیوں نے سی اے جی کو ضروری رپورٹ جمع نہیں کی۔ ڈسکام نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ یہ قطعی رپورٹ نہیں ہوسکتی۔ سی اے جی آڈٹ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور یہ تعجب کی بات ہے کہ بغیر ہائی کورٹ کے حکم کے یہ رپورٹ باہر کیسے آئی؟ بی ایس ای ایس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سی اے جی آڈٹ کی کسی بھی رپورٹ کی اشاعت کی اجازت پر پوری طرح روک لگی ہوئی ہے کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ کمپنی کے ترجمان نے مزید دلیل دی ہے کہ سی اے جی آڈٹ کی کارروائی پوری ہی نہیں ہوئی ہے کے سی اے جی ڈسکام کے خلاف کسی منفی نتیجے پر پہنچ گئی ہے۔ بتا دیں کہ سیاست میں آتے ہی اروند کیجریوال نے دہلی کی ان بجلی کمپنیوں کے خلاف مہم چلائی تھی۔ بجلی بل میں بڑھتی جاری گڑبڑیوں کے معاملے میں وہ مشرقی دہلی میں کئی دنوں تک بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھے تھے۔ سال 2012 میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعلی نے بجلی کمپنیوں کے خلاف سی اے جی آڈٹ کا حکم جاری کیا۔ آج یقینی طور سے اروند کیجریوال کی محنت رنگ لائی اور ان کمپنیوں کی دھاندلیوں اور جنتا کو لوٹنے کا گورکھ دھندے کا پردہ فاش ہوا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟