الہ آباد ہائی کورٹ کا دور رس تاریخی فیصلہ

الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز اترپردیش کے پرائمری اسکولوں کی بدحالی پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔عدالت نے عوامی نمائندوں، حکام اور جج صاحبان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا ضروری کردیا ہے۔ جو نہیں پڑھائیں گے اسے پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کے برابر پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرانا ہوگا۔ اتنا ہی نہیں عدالت نے کہا کہ جو لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں نہیں پڑھائیں گے ان کا پرموشن اور ترقی بھی روک دی جائے گی۔ فیصلہ اگلے سیشن سے لاگو ہوگا۔ عدالت نے اترپردیش کے چیف سکریٹری کو حکم دیا ہے کہ وہ طے کرے کہ سرکاری خزانے سے تنخواہ یا دیگر مراعات یا کسی طریقے سے پیسہ لینے والوں کے بچے ضروری طور سے یوپی بورڈ کے اسکولوں میں ہی پڑھیں۔ عمل پر ریاستی سرکار کو چھ مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ریاست میں تین طرح کا تعلیمی نظام ہے۔ انگریزی کانوینٹ اسکول، درمیانے طبقے کے پرائیویٹ اسکول اور سرکاری اسکول ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے گرتے معیار کے بارے میں تو سب کو پتہ ہے لیکن اسے ناسور بننے سے روکنے کے لئے کوئی تیار دکھائی نہیں پڑتا۔ اس حکم کے جواز کو لیکر بحث ہوسکتی ہے کہ آخر یہ سب اتنی جلدی کیسے ممکن ہوگا۔ یا اس حکم کو بنیادی حق سمیت آئینی تقاضوں و اختیارات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ پانچ سال کی مکمل اکثریت والی سرکار چل رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی پر ذمہ داری ہے کہ وہ جوابدہی کا شکنجہ کستا ہے کیونکہ کوئی ووٹ بینک کی خاطر اس کے عہد میں تعلیمی سیکٹر میں ایسے تجربے کئے گئے ہیں، جنہوں نے کم سے کم بنیاد کہلانے والی ابتدائی تعلیم کا تو کچومر ہی نکال دیا ہے۔ 
ٹیچروں کی بھرتی میں لاپرواہی تو عام ہے ۔ سپا نے ووٹ بینک بنانے کیلئے نیم تعلیم یافتہ یا نااہل شکشا متروں کو ہی ٹیچر بنا دیا۔ بہت ممکن ہے کہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج دینے کے لئے قانونی متبادل پر بھی غور کیا جارہا ہو۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ عدالت میں پالیسی سازوں اور سرکاری ملازمین کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ آخر یہ جوابدہی کوئی لینے کو تیار کیو ں نہیں ہوتا کہ سرکاری اسکولوں کی حالت دن بدن خراب کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اور یہ حالت صرف اترپردیش کی ہی نہیں بلکہ پورے دیش کے پرائمری اسکولوں کا یہی حال ہے۔2013-14 کی اس ڈائس (ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجو کیشن) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح دیش میں پرائمری اسکولوں کا ڈھانچہ چرمرار رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ دیش کے پرائمری اسکولوں کا ہر پانچواں ٹیچر صلاحیت نہیں رکھتا۔ باقی بنیادی سہولیات کی بات چھوڑ دی جائے تو یہ حکم میل کا پتھر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر، ایم ایل اے یا عوامی نمائندہ یا سرکاری ملازم کوئی بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیجنے کیلئے راضی نہیں ہے لہٰذا حالت بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!