مسلم آبادی میں 24 فیصد اضافہ!

پچھلے دنوں ساکشی مہاراج کے اس بیان پر کہ ہندو عورتوں کو 4 بجے پیدا کرنے چاہئیں، پر ہنگامہ مچ گیا تھا۔ ہم ساکشی مہاراج کے اس بیان کی حمایت نہیں کرتے۔ کیونکہ دیش کو ضرورت اس بات کی نہیں کہ آبادی کو اور بڑھایا جائے اس بات کی ہے کہ دیش میں بچوں کی تعداد پر کنٹرول لگے۔ اس کے بعد آئی 2011ء میں آبادی کے اعدادو شمار جس میں نئی مردم شماری ہوئی تھی۔ اس کے مطابق2001ء سے 2011ء کے درمیان مسلمانوں کی دیش میں آبادی 24 فیصد بڑھی ہے اس کی وجہ سے دیش میں مسلمانوں کی آبادی 13.4 فیصد سے بڑھ کر14.2 فیصد ہوگئی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر مردم شماری ماضی میں یوپی اے سرکار میں کرائی تھی لیکن اس کے اعدادو شمار جاری نہیں ہوئے تھے۔ اب مرکز میں آئی مودی سرکار نے اسے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ان اعدادو شمار سے ایک بات کا تو پتہ چلا کہ اس سے پہلے کہ سال1991 سے2001 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی اضافہ شرح 29 فیصد تھی جو پچھلی دہائی میں کم ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ قومی تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ قومی تناسب پچھلی دہائی میں 18 فیصد رہا۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع اعدادو شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ آسام میں ہوا ہے۔ 2001ء میں آسام میں مسلمانوں کی آبادی 30.9 فیصد تھی جو ایک دہائی بعد بڑھ کر34.2 فیصد ہوگئی۔بنگلہ دیش سے آنے والے ناجائز طور پر بنگلہ دیشی لوگ ہمیشہ سے آسام کے لئے اور دیش کے لئے ایک بڑا مسئلہ رہے ہیں۔ آسام کے ساتھ لگی مغربی بنگال کی سرحد سے بنگلہ دیش سے آنے والے ناجائز افراد کے مسئلے سے بھی دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ یہاں بھی مسلمانوں کی آبادی بڑھی ہے۔ سال2001ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی25.2 فیصدی سے بڑھ کر2011ء میں27 فیصدی ہوگئی۔ سب سے اہم بات یہ ہی ہے کہ دیش میں مسلم آبادی کے بڑھنے کی رفتار گھٹی ہے لیکن اضافہ اب بھی قومی سطح سے زیادہ ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے ’چھوٹا پریوار سکھی پریوار ‘ کے نعرے کو مسلم سماج میں آہستہ آہستہ مقبولیت مل رہی ہے۔اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے حصول میں کامیاب رہے مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ اب اپنے کنبے کو اپنی چادر کے حساب سے ہی بڑھا رہا ہے لیکن یہ صاف ہے ایک بڑے حصے کو اب بھی خاندانی منصوبہ بندی کو لیکر ترغیب اور اس کے فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم آبادی میں ہورہے اضافے کو قومی تناسب کے قریب لایا جاسکے اور جی ڈی پی کے طور پر آبادی کنٹرول کی مہم میں کامیابی مل سکے لیکن یہ کام خاص زور زبردستی سے نہیں کیا جاسکتا یہ کام مسلم مذہبی پیشواؤں ،مولانا ، امام زیادہ بہتر طریقے سے کرا سکتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ کم بچوں کو پیدا کرکے انہیں بڑھیا تعلیم و پرورش کر سکتے ہیں، ان کا مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ ویسے شہروں میں مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے۔ نہ تو وہ چار شادیاں کررہے ہیں اور نہ ہی بچوں کی فوج کھڑی کررہے ہیں۔ کچھ امام، مولانا یہ بھی کہتے ہیں ’تم زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرو تاکہ مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے اور ہم ہندوستان پر راج کریں۔ ایسے مسلم مذہبی پیشواؤں کی بھی اتنی ہی تنقید کرنی چاہئے جتنا ساکشی مہاراج کی کی جارہی ہے۔ جس طرح آسام اور مغربی بنگال میں پچھلے 10 برسوں میں مسلم آبادی تقریباً4 فیصد بڑھ گئی ہے اندیشہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد ناجائز طورپر آئے بنگلہ دیشیوں کی ہوسکتی ہے۔ یہ تشویش کا باعث ہے کہ بنگلہ دیشی بھارت میں شورش اور خون خرابہ اور بڑھتے دہشت گردی واقعات اس بڑھتی آبادی کا ایک اہم سبب ہے۔ یہ دیش کی اندرونی سلامتی کیلئے اب خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلم کنبوں میں خاص کر جو تعلیم یافتہ ہیں اپنے بچوں کو بہتر اور باقی سہولیات بہتر پرورش دینے کیلئے اپنے کنبوں کو محدود کرتے جارہے ہیں۔ سرکار کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں سمیت سماج کے سبھی طبقوں کو طریقے کے ہر ممکن مواقع دستیاب کرائے۔ بہتر تعلیم دیکر ان میں خواندگی اور ساتھ ہی طبقہ خاص کی آبادی کو لیکر سیاست نہ ہونے دیں کیونکہ اس سے آپسی کشیدگی بڑھتی ہے اور سماج میں تلخی آتی ہے۔ آبادی تو ہمارے لئے ایک مسئلہ بن گئی ہے زیادہ شرمناک یہ ہے کہ وسائل اور سہولیات کی کمی کے چلتے آبادی بڑھتی جارہی ہے اس پر کیسے کنٹرول کیا جائے یہ مودی سرکار کے لئے ایک چنوتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟