لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اشو پر کانگریس کی کرکری!
آخر کار لوک سبھا اسپیکر نے کانگریس کی یہ مانگ مسترد کردی کہ لوک سبھا میں اس کے لیڈرملکا ارجن کھڑگے کو اپوزیشن کے لیڈر کی حیثیت دی جائے۔16 ویں لوک سبھا میں لیڈر و اپوزیشن کی کرسی خالی ہی رہے گی۔ اسپیکر سمترا مہاجن نے کانگریس کی تمام دلیلیں اور دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اس فیصلے سے کانگریس لیڈر شپ کو واقف کرادیا ہے۔ سمترا مہاجن نے کانگریس کواپوزیشن لیڈر کا درجہ نہ دئے جانے کے اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا کہ میں نے قواعد اور روایت کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اسپیکر نے اٹارنی جنرل مکل روہتگی کے نظریات بھی جانے، جنہوں نے کہا کانگریس کہ پاس ایوان میں وہ ضروری ممبروں کی تعداد نہیں ہے جس سے اسے لیڈر آف اپوزیشن کا درجہ دیا جا سکے۔ ظاہر ہے یہ حالت دیش کی اس سب سے پرانی پارٹی کیلئے خاصی توہین آمیز ہے جو زیادہ وقت تک مرکزی اقتدار پر قابض رہی لیکن اس کیلئے اگر سب سے زیادہ ذمہ دار کوئی ہے تو وہ خود کانگریس ہے۔ بہتر یہی ہوتا کہ لوک سبھا چناؤ میں کراری ہار اور 10 فیصد تک سیٹیں پانے میں ناکام رہی کانگریس اس عہدے کے لئے اپنا دعوی پیش نہیں کرتی۔ اسپیکر کا فیصلہ پارٹی سے بالاتر ہوتا ہے لیکن ہماری پارلیمانی سسٹم کی مضبوطی کے لئے شاید ٹھیک نہیں ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کا اشو بجٹ اجلاس کی شروعات سے ہی کانگریس اور حکمراں پارٹی کے درمیان ٹکراؤ کا اشو بنا رہا لہٰذا اسپیکر نے اس معاملے میں نتیجے پر پہنچنے سے پہلے متعلقہ و قانونی ماہرین سے صلاح مشورہ کیا ہے۔ خبر ہے کہ لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن نے سونیا گاندھی کو خط لکھ کر کانگریس کی مانگ کو نامنظور کرنے کے پیچھے دو خاص وجوہات بیان کی ہیں ایک یہ کہ کانگریس لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی ضروری شرط کو پوری نہیں کرتی۔ انہوں نے پارلیمانی بک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس عہدے کے لئے لوک سبھا میں متعلقہ پارٹی کے پاس کم سے کم 10 فیصدی سیٹیں ہونا ضروری ہیں۔543 ممبری لوک سبھا میں کانگریس کے 44 ممبر ہیں جبکہ یہ تعداد لوک سبھا میں کل تعداد کی محض10 فیصد سے کم ہے۔ اسپیکر نے دوسری وجہ کے طور پر اٹارنی جنرل مکل روہتگی کی رائے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں قانون داں بھی اس پارلیمانی روایت کی کتاب کو ہی اپنی سفارش کی بنیاد بنایا ہے لیکن1977 میں بنے لیڈر اپوزیشن کی تنخواہ بھتوں اور دیگر سہولیات سے متعلق قانون میں اس چلن کو ڈھیلا کرنے کی گنجائش رکھی تھی۔ اس قانون میں لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کولیڈر آف ہاؤس ماننے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں کم از کم 10 سیٹوں کی کوئی شرط نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کانگریس اپنے حق میں اس قانون کی دہائی دے رہی ہے لیکن اس نے خود اس کی تعمیل نہیں کی۔ راجیو گاندھی کو415 سیٹوں کے ساتھ اکثریت ملی تھی تب بھی اپوزیشن کی کوئی پارٹی 10 فیصد سیٹوں تک نہیں پہنچ پائی تھی اس وقت لوک سبھا میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی تیلگو دیسم ہوا کرتی تھی۔ اسی بنیاد پر وہ ایوان میں اپنے لیڈر پی اوپیندر کو لیڈر اپوزیشن کا درجہ دینے کی اپیل کرتی رہی لیکن اس کی نہ سنی گئی۔ تب بھی لوک سبھا اسپیکر حکمراں پارٹی کا رخ یکساں تھا۔ تب اس قانون کو کیوں نظر انداز کردیا گیا جو پہلے بن چکا تھا؟ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 10 فیصدی کی شرط کی وجہ سے ہی پہلے عام چناؤ کے تقریباً17 سال بعد تک اپوزیشن لیڈر کی کرسی خالی رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ1977ء میں بنے جس قانون کی بنیاد پر کانگریس اپنی دعویداری پیش کرتی رہی خود اس کے عہد میں 1980 اور84 میں تشکیل لوک سبھاؤں میں سب سے بڑی پارٹی کوا پوزیشن لیڈر کے عہدے سے محروم رکھا گیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں کانگریس نے ہی فصل کاٹی جو اس نے خود بوئی تھی۔ اب کسی قسم کی تنقید کے بجائے اسے اسپیکر کے فیصلے کو ماننا چاہئے اور اس کڑوی سیاسی غلطی کا اعتراف کرنا چاہئے۔ بہرحال سوال یہ بھی ہے کہ نیتا اپوزیشن کی غیر موجودگی میں چیف انفارمیشن کمشنر مرکزی ویجی لنس کمشنر اور لوک پال کے انتخاب کی کارروائی میں مشکل آسکتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں