لیک سے ہٹ کرمودی کی لال قلعہ سے پہلی شاندار تقریر!

آزادی کی67 ویں سالگرہ پر دہلی کا تاریخی لال قلعہ ہر بار کی طرح سجا دھجا تھا۔ جشن آزادی کی فضا اس بار جدا ضرور تھی۔اس پوتر یوم آزادی کے موقعہ پر پہلی بار آزاد بھارت میں پیدا ہوئے پہلے پردھان منتری کے روپ میں نریندر مودی نے ترنگا لہرایا۔ پردھان منتری نریندر مودی کے پر اثرتقریر کے انداز کی جانکاری رکھنے کے باوجود اسے لیکر دیش بھر میں دلچسپی تھی کہ مودی اپنی پہلی تقریرمیں لال قلعہ سے کیا بولتے ہیں؟جیسا کے امید تھی لال قلعہ کی فصیل سے نریندر مودی کا بنا لکھی ہوئی تقریر کئی معنوں میں تاریخی اور شاندار رہی۔ انہوں نے پردھان سیوک کے روپ میں اپنا تعارف دیکر شروعات میں ہیں لوگوں کا دل جیت لیا۔امید کے مطابق نہ تو انہوں نے کسی تحریری تقریر کا سہارا لیا اور نہ ہی جیسا عام طور پر ہوتا آیا ہے لوک لبھاون اعلانات کی جھڑی ہی لگائی۔ لال قلعہ سے پہلی بار دیش کو مخاطب کرتے ہوئے مودی نے کئی چوکھٹوں کے پار نکل کر جنتا کے دل کو چھونے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ اس موقعہ پر پردھان منتری نے دیش کی اب تک کی وکاس یاترا کیلئے سبھی پردھان منتریوں اور سرکاروں کو سراہا لیکن یہ بھی یاد دلایا کہ دیش کو کسانوں، مزدوروں اور نوجوانوں نے بنایا ہے۔پردھان منتری نے جنسی بھید بھاؤ ،لڑکیوں کا حمل میں قتل اور بلاتکار کے بڑھتے واقعات کو شرمناک بتایا۔ ان کا یہ کہنا اہم تھا کہ سرپرستوں اور سماج کی ساری بندشیں لڑکیوں پر تھونپنے کی بجائے لڑکوں سے بھی سوال جواب کرنے چاہئیں۔ پردھان منتری نے کہا کہ جوان بیٹی سے تو ماں باپ سینکڑوں سوال پوچھتے ہیں لیکن کیا کبھی بیٹے سے پوچھنے کی ہمت بھی کی کہ کہاں جارہے ہو، کیوں جارہے ہو؟ آخر بلاتکار کرنے والا کسی نہ کسی کا بیٹا تو ہے۔ بیٹیوں پر جتنی بندشیں لگائی ہیں کبھی بیٹوں پر بھی لگا کر دیکھو۔ڈاکٹروں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی تجوری بھرنے کے لئے کسی ماں کے حمل میں پل رہی بیٹی کو مت ماریئے۔ پردھان منتری نے ہنسا پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے اپنے تخاطب میں کہا کہ بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ماؤ وادی آتنک وادی کسی نہ کسی کے تو بیٹے ہیں۔ میں ان ماں باپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے کبھی اس راستے پر جانے سے پہلے پوچھا تھا آپ نے؟ جاتی واد کا زہر ہو ،فرقہ پرستی کا زہر ہو، آتنک واد کا زہر ہویہ دیش کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہیں۔ ایک بار من میں طے کرو 10 سال کیلئے موروٹوریم طے کرو، اس کے علاوہ نریندر مودی نے اور کئی اہم مدعوں پر اپنے خیالات رکھے۔ کھلے میں شوچ کرنے کی مجبوری کو خواتین کی بے عزتی بتاتے ہوئے انہوں نے سانسدوں سے گزارش کی کے وہ اپنی سانسد ندھی سے ایک سال تک شوچالیوں کی تعمیر کرائیں۔ وزیر اعظم نے سانسدوں سے اپنے علاقے میں آدرش گاؤں ڈولپ کرنے کو بھی کہا۔ پردھان منتری کا یہ اعلان بھی بیحد اہم ہے کہ پلاننگ کمیشن کی جگہ پر نئی سنستھا بنائیں گے۔ کل ملاکر پردھان منتری کی تقریر لیک سے ہٹ کر جنتا سے سیدھی بات کرنے کی انوکھی کوشش رہی۔ جس طرح سے انہوں نے بلٹ پروف گھیرے کے بغیر قوم کو مخاطب کیا اور خود دوسروں سے زیادہ محنت کرنے کی بات کہی اس سے صاف ہے کہ وہ دیش واسیوں کو نڈر رہ کر مسلسل آگے بڑھنے کے لئے پریرت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کم اہم نہیں کہ لال قلعہ کی فصیل سے نریندر مودی ایک ایسے سیاستداں کی شکل میں ابھرتے دکھے جو روایتی سیاست کے دقیانوسی ڈھانچے سے باہر نکل کر جنتا کو پریرت کرکے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آگے کے راستے کو طے کرنے کے لئے انہوں نے صاف کہا کہ سب کچھ سرکاریں نہیں کرسکتیں بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں جنتا کی بھاگیداری سے ہی پورا کیا جاسکتا ہے اور اس میں ہاتھ بٹانا جنتا کی ذمہ داری بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سالوں بعد کسی پردھان منتری نے دیش کی امیدوں کو نئے سرے سے جگانے کا کام کیا ہے۔ان شاندار سنکیتوں کے درمیان سوال صرف ایک ہے کہ کیا مودی ان طبقوں کو بھی چھوپائیں گے جو ان کو شک سے دیکھتے رہے ہیں۔ ایک قوم کی شکل میں جو کچھ بھارت کی پہنچ کے اند دکھتا ہے اسے پانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مودی سرکار کے تئیں لوگوں کے بھروسے کو بنائے رکھیں۔ کیونکہ یہ بھروسہ اور امیدہی حقیقی بدلاؤ لا سکتے ہیں۔ ہاں کچھ سیاستداں مودی کے بھاشن سے مایوس بھی ہوں گے۔ خاص کر دہلی کے بھاجپا نیتا جو یہ امید لگائے بیٹھتے تھے کہ پردھان منتری اس موقعہ پر دہلی کو مکمل راجیہ کا درجہ دینے کا اعلان کریں گے ، پر ایسا نہیں ہوا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟