مودی کاپاکستان کو کرارا جواب ہی بات چیت منسوخ ہونے کا سبب!
نریندر مودی سرکار نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کے ذریعے حریت کے لیڈروں سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں کی بات چیت کو منسوخ کرکے پاکستان کو سخت اور صحیح پیغام دیا ہے۔ حکومت ہند کی ناراضگی اور احتجاج کے باوجود پاک ہائی کمشنر عبدالباسط نے منگل کو کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکومت کا پیغام صاف ہے کہ پاکستان کو چنی ہوئی سرکار اور علیحدگی پسندوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مودی سرکار کا یہ موقف پچھلی تمام حکومتوں سے الگ ہے جو پاکستانی لیڈروں اور سفارتکاروں سے کشمیری علیحدگی پسند لیڈروں سے ڈپلومیٹ سے ملاقات کی مخالفت تو کرتی تھیں مگر ان ملاقاتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیا کرتی تھیں۔ دراصل پاکستان کی کشمیر ایک مجبوری ہے اور یہ پاکستان کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہی ایک سیمنٹ کی طرح کام کرتی ہے۔ کشمیر کا راگ پاکستان نے ہمیشہ اٹھایا ہے ، اس تنازعے سے پاکستان کئی ٹکڑوں میں بنٹ سکتا ہے لیکن ہمیں آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ سابقہ حکومتیں ان حریت لیڈروں کو اتنی اہمیت کیوں دیتی آرہی ہیں؟ کھلے عام کشمیر کو آزاد کرانے کی بات کرتے ہیں۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ آئی ایس آئی کے ٹکڑوں پر ایسی بات کرنے کیلئے پلتے ہیں۔ آج تک انہوں نے نہ تو کوئی اسمبلی چناؤ لڑا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کا۔ ان کی کشمیری عوام پر بھی کوئی خاص پکڑ نہیں پھر بھی حکومت ہند انہیں وی آئی پی اہمیت کیوں دیتی ہے؟ انہیں بھارت سرکار نے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز دے رکھے ہیں، کیوں؟ یہ تو خود آتنک وادی علیحدگی پسندوں کے حمایتی ہیں یہ سکیورٹی بلا تاخیر ختم کی جانی چاہئے۔ اگر یہ کشمیری عوام کے نمائندے ہیں تو انہیں ڈر کس کا ہے؟ ہمیں پاکستان کے بارے میں ایک دو باتیں سمجھنی ہوں گی کہ آتنک واد کو بڑھاوا دینا، بھارت میں درپردہ لڑائی چھیڑنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان میں سرکار کوئی بھی آئے وہ راگ ہمیشہ کشمیر کا ضرور گاتی ہے اور جب تک پاکستان بھارت کے خلاف یہ درپردہ جنگ ختم نہیں کرتا دونوں ملکوں کے بیچ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ سوال بھی کم اہمیت کا حامل نہیں کہ پاکستان میں سیاسی باگ ڈور کس کے ہاتھوں میں ہے؟ یہ کسی سے چھپا نہیں کہ پاکستان کی پالیسی وہاں کی فوج تیار کرتی ہے اور آئی ایس آئی ہر قیمت پر نہ تو کشمیر کا راگ چھیڑنے سے باز آئے گی اور نہ ہی اپنی درپردہ جنگ بند کرے گی۔ پھر آج کل تو نواز شریف کی کرسی خود ڈگمگا رہی ہے۔ گھریلو مشکلات سے توجہ ہٹانے کے لئے بھی شریف سرکار نے حریت لیڈروں سے بھارت سرکار کے خلاف جاکر ملاقات کی۔ مودی نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن پاکستان نے ثابت کردیا کہ وہ اس کے قابل نہیں۔ اب مودی کا چانٹا پڑا ہے تو وہ تلملا اٹھی ہے۔
پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان ہوئے تمام فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ 1972ء میں اندرا گاندھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا تھا۔1999ء میں اٹل بہاری واجپئی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان بھی لاہور اعلانیہ جاری ہوا تھا۔ دونوں میں یہ صاف لکھا ہوا ہے کہ دونوں ملکوں آپسی مسائل کو آپس میں مل کر حل کریں گے پھر یہ تیسرا فریق یعنی حریت بیچ میں کہاں سے آجاتی ہے۔ آخر بھارت اسے برداشت کیوں کرتا ہے؟26 مئی کو نواز شریف نے جب مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کی تھی تو انہوں نے دوستی کی بات کی تھی۔ اس ملاقات میں کسی حریت لیڈر سے ملنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ بھارت کو بھروسہ ہوا تھا کہ دوستی کا ماحول بنا ہے لیکن حریت لیڈروں سے مل کر پاکستان نے دوستی کا ماحول ختم کردیا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا ان لیڈروں سے ملنے سے پاکستان کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ ان میں نہ تو کوئی اتحاد ہے اور نہ ہی وفاداری۔ دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر سے الگ الگ ملتے ہیں کیوں؟ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے بلکہ ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لئے کچھ باتیں ضروری ہیں۔ پہلی دونوں ملکوں کی بڑی قیادت میں ایک دوسرے کے تئیں بھائی چارگی ہو اور دونوں اپنے اپنے ملکوں کی عوام میں وسیع بنیاد والے ہوں اور دونوں کو اپنے اپنے دیش میں کسی اور طاقت سے ڈر نہ ہو۔ جہاں تک سینئر قیادت میں بھاری چارگی کا سوال ہے تو نواز شریف کے بارے میں بھارت میں اچھی رائے ہے اور مودی کو شریف سے کوئی پرہیز نہیں ہے لیکن جہاں تک دوسری بات ہے یعنی اپنے دیش میں وسیع بنیاد میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ نواز شریف پاکستانی فوج کی مرضی کے خلاف ایک پتتا بھی نہیں ہلا سکتے کسی طرح کا سمجھوتہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ پاکستان میں بھارت کے تئیں کسی بھی سفارتی مسئلے کو ہری جھنڈی فوج کے ہاتھ سے دی جاتی ہے۔ دراصل ہماری رائے میں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل سے زیادہ نظریاتی رکاوٹ ہے۔
بھارت ۔پاک سے تعلقات بنانا چاہے بھی تو پاکستانی آئیڈیا لوجی ایسی ہے جو بھارت کو پاکستان سے دور رکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ نواز شریف کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں وہ پاکستان میں اقتدار کا اکیلا مرکز نہیں ہیں۔ ان کے خلاف ابھی عمران خاں اور مولانا طاہر القادری نے بھی محاذ کھول رکھا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے ساتھ کٹر پنتھی جہادیوں کا دبدبہ الگ ہے۔ یقینی طور پر اس واقعہ کے پس منظر میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے وقت جب دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا عمل پٹری پر لوٹتا دکھائی دے رہا تھا تب پاکستان کی طرف سے مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کرکے بھڑکانے والی کارروائی جاری ہے۔ دراصل پاکستان میں ایسی طاقتیں کم نہیں ہیں جو کبھی نہیں چاہتیں کہ دونوں ملکوں کی جمہوری سرکاری امن عمل کی طرف آگے بڑھیں۔ اچھے رشتوں کی تمنا لائق خیر مقدم ہے مگر اسے سرکار کے ذریعے عمل کراناتبھی ممکن ہوگا جب دوسرا فریق بھی اس کے لئے ایماندارانہ رویہ اپنائے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں