اس شرمناک ہار کے بعد کچھ سخت فیصلے لینے کا وقت!
ٹیم انڈیا نے انگلینڈ کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں شرمناک ہار نے دیش کو ہی شرمسار کردیا ہے۔ ٹیم انڈیا نے سیریز تو کھوئی ہے ساتھ ہی عزت بھی گنوا دی۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن بھارتیہ کرکٹ ٹیم نے بڑھت لینے کے بعد جس انداز میں انگلینڈ ٹیم سے پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کو 3-1 سے گنوایا ، وہ کافی شرمناک اور چونکانے والا واقعہ ہے۔ ہندوستانی بلے بازوں نے انگلینڈ کے خلاف پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں جس طرح ہتھیار ڈالے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔بھارتیہ ٹیم 40 سال پہلے یعنی1974 میں انگلینڈ سے لاڈس کے میدان میں پاری اور 255 رن سے ہاری تھی۔ اس کے بعد یہ ہندوستانی ٹیم کی سب سے شرمناک ہار ہے۔ اس شرمناک کھیل کے بعد اب تنقید کا دور شروع ہونا فطری بات ہے۔ سنیل گواسکر تو ٹیم کے خراب کھیل سے کافی ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا اگر آپ بھارت کے لئے ٹیسٹ نہیں کھیلنا چاہتے تو اسے چھوڑدیں۔ صرف محدود اووروں کی کرکٹ کھیلوں ،آپ کو اس طرح دیش کو شرمسار نہیں کرنا چاہئے۔ سابق کپتان اجیت واڈیکرنے کہا کہ لارڈس کی مشکل پچ پر ہمارے جیتنے کے بعد کوچ فلیچر وہاں کیا کررہے تھے؟ دھونی کے سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی تکنیک میں تبدیلی کی ہے اور اچھی بلے بازی کی لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کپتان کی شکل میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کیوں نہیں کرتے؟ سابق اور بڑے بلے باز جی وشواناتھ بھی کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں دھونی امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے کرشمے سے ہی ٹیم کو کھڑا کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ میں ان کی وکٹ کیپنگ اور کپتانی سے بھی خوش نہیں ہوں۔ اس کا اپنا دماغ ہے وہ ہمیشہ چیزوں کو دوہراتا ہے۔ سابق کرکٹر دلیپ وینگسرکر کا کہنا ہے کہ دھونی نے ٹیم کی رہنمائی اچھی طرح سے نہیں کی اور اس کی سلیکشن پالیسی اور حکمت عملی اور میدان کی سجاوٹ اور گیند بازی میں تبدیلی میں کچھ عام کمی دیکھی گئی ہے۔ سوروگانگولی نے کہا کہ سلیکٹروں کو اب اپنا نظریہ بدلنا ہوگا اور کچھ سخت فیصلے لینے ہوں گے۔ دراصل دھونی کے ٹیسٹ کپتان کی شکل میں ان کے ٹیلنٹ پرسوال کھڑے ہورہے ہیں۔ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے ٹوئٹر پر توہین آمیز تبصرہ کرکے ٹیم کو نچلے درجے کا بتایا۔ غور سے دیکھیں تو ہمارا ٹاپ بیٹنگ آرڈر اس سیریز میں شروع سے ہی لاچار ثابت ہوا۔ لارڈس کی پہلی رننگ کے بعد سے مسلسل ہمارا اسکور نیچے آتا رہا ہے اور آخری پاری میں ہماری ٹیم 29.2 اوور میں ہیں محض 94 رن بنا کر ڈھیر ہوگئی۔ اگر آخری پانچ اننگ کا حساب دیکھیں تو ٹیم انڈیا نے سبھی50 وکٹ کھو کر صرف733 رن بنائے یعنی فی پاری150 رن سے بھی کم۔ ٹیم کے ذریعے آزمائے گئے کل 7 اسپیشل بلے بازوں میں صرف مرلی وجے، دھونی کے علاوہ ابھینے رہانے ہی کچھ رن بنا سکے۔ شیکھر دھون، گوتم گمبھیر، وراٹ کوہلی اور شیکھر پجارا نے بری طرح مایوس کیا ہے۔ یہ صرف ایک سیریز کا معاملہ نہیں ہے۔ کوچ گیری کسٹن نے اپنے وقت میں ٹیم کو جن بلندیوں پر پہنچایا اس کی کوئی جھلک اس ٹیم میں نہیں دکھائی دی۔ ٹیم انڈیا غیر ملکی سرزمین پر 2011 کے بعد سے 13 ٹیسٹ ہار چکی ہے اور کوچ ان خامیوں کو دور نہیں کرا پارہے ہیں تو ان کے بنے رہنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔بات کپتان مہندر سنگھ دھونی پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ انہیں خود ہی اپنی ناکامیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیسٹ کپتانی چھوڑ دینی چاہئے اور کہا بھی جارہا ہے کہ کھلاڑیوں کا ون ڈے کرکٹ کو لیکر بنا دبدبہ انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں کامیاب نہیں ہونے دے رہا ہے۔ یہ بی سی سی آئی کی سلیکشن کمیٹی کا فرض بنتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں سے کھل کر پوچھے کہ کون ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا اور ایسے کھلاڑیوں کو باہر کا راستہ دکھائے۔ وہ ٹیسٹ میں انہی کرکٹروں پر بھروسہ کرے جو کھیل کے اس خاکے کیلئے کارگر ہوں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کپتانی کے محاذ پر مہندر دھونی کا متبادل کوئی فی الحال نظر نہیں آرہا ہے۔ وراٹ کوہلی سے امید تھی لیکن وہ اس ٹور میں بری طرح فلاپ ہوئے ہیں اور ان سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ جلد ہی ہمیں کچھ نہیں سیریز کھیلنی ہیں ۔ فروری میں ورلڈ کپ بچانے کی جنگ لڑنی ہے، ایسے میں دھونی کو اپنی ٹیم کا اعتماد لوٹانا ہوگا تاکہ ہم 13 ویں بار تین دن میں ٹیسٹ گنوانے کے صدمے سے باہر نکل سکیں۔ بی سی سی آئی میں پیسہ اور اقتدار کا اتنا بڑا کھیل چلتا ہے کہ وہ اپنا سب سے ضروری فرض بھول گئے ہیں۔ پیسے سے زیادہ کرکٹ پر توجہ دینی ہوگی جس کا گرتا معیار سبھی کیلئے باعث تشویش بنتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں