دہلی میں غریب کا بیمار ہونا مطلب اس کا اجڑنا!

دہلی میں غریبوں کے علاج کے انتظامات میں بہت کمی سامنے آرہی ہے۔ مودی سرکار اور خاص کر ڈاکٹر ہرش وردھن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس میں سدھارکرنے کیلئے بنا دیری کئے قدم اٹھائیں گے۔بات کرتے ہیں غریب مریضوں کے فری علاج کی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے خط افلاس سے نیچے والوں کے لئے دہلی این سی آر کے 46 ہسپتالوں میں فری علاج کے قاعدے بنائے لیکن تمام ہسپتالوں سے شکایتیں آرہی ہیں کہ وہاں جتنے بیڈ بی پی ایل کارڈ ہولڈروں کے لئے ریزرو ہیں اتنا ایڈمیشن نہیں کیا جاتا۔غریب مریض لاکھوں کا بل دینے پر مجبور ہیں۔ بار بار شکایتیں اور ہسپتالوں کو بار بار ہدایت ملنے کے بعد بھی ایسا لگاتار ہورہا ہے۔یہ بھی الزام لگتے ہیں کہ مریض کے ذریعے پیش کئے جانے والے ڈاکو مینٹ میں کوئی نہ کوئی کمی نکال کر معاملہ لٹکادیا جاتا ہے۔حالانکہ اس بارے میں ہسپتالوں کا اپنا ترک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی پی ایل کارڈ مس یوز کے تمام کیس کے بعد احتیاط برتی جاتی ہے۔ وہیں کچھ لوگ علاج کے شروعات میں نہیں بلکہ بیچ میں اپنے دستاویز دکھاتے ہیں تو پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج میں آرہی بار بار کی شکایتوں اور انہیں علاج میں چھوٹ کولیکر لمبی قواعد کے بعد آخر کار سپریم کورٹ نے اس بارے میں رول بنائے ،حال میں رول کے مطابق اگر کسی کی ماہانہ آمدنی 8086 روپے سے کم ہے تو اسے غریب مانا جائے گا۔ انہی دہلی این سی آر کے 46 ہسپتالوں میں فری علاج مل سکے گا۔ یہ وہ ہسپتال ہیں جنہیں سرکار کی جانب سے رعایتی شرحوں پر ہسپتال بنانے کے لئے زمین دی گئی ہے لیکن آئے دن شکایت آتی رہتی ہے کہ غریب مریضوں کو نہ تو ان ہسپتالوں میں بیڈ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا علاج ہوپاتا ہے۔ غریبوں کے لئے ریزرو80 فیصدی بیڈ بھی نہیں بھرے ہوتے ہیں۔کم آمدنی زمرے کے لوگوں کیلئے او پی ڈی میں25 فیصدی کوٹا ہے جبکہ علاج کے لئے10 فیصدی بیڈ ریزرو کرنے کا رول ہے۔ پچھلے دنوں لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی ہدایت پر جب محکمہ صحت نے الگ الگ ہسپتالوں کا اچانک معائنہ کیا تھا تو وہاں کی تصویر کچھ اور ہی بیان کررہی تھی۔ اگر ایم یا دہلی کے کسی مشہور ہسپتال میں آپ کا کام جلدی کروانے کے لئے کوئی پیسہ مانگے تو تھوڑا ہوشیار ہوجائیں وہ ہمدرد کے روپ میں ٹھگ یا دلال بھی ہوسکتا ہے۔ یہ نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ جلدی کام کرانے، بیڈ دلانے کے لئے دلالوں کی فوج کھڑی ہوگئی ہے۔ دہلی کے کچھ ہسپتالوں میں ایسی کئی شکایتیں دکھی گئی ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے تمام کوششوں کے بعد بھی ان پر لگام نہیں لگ پارہی ہے۔ یہ ان مریضوں کو خاص کر نشانہ بناتے ہیں جو باہر سے آتے ہیں اور یہاں انہیں ڈاکٹر سے ملنے سے لیکر ٹیسٹ کروانے تک کی تمام پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جلدی کام کرانے، ٹیسٹ وغیرہ کرانے، بیڈ دلوانے کا ریٹ 500 سے 2000 روپے تک کا ہے۔ڈاکٹروں کی بات کریں تو کئی ہسپتالوں میں تو ڈاکٹروں کا اکال پڑا ہوا ہے۔ دہلی کے چار بڑے ہسپتالوں میں گذشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران 60 ڈاکٹروں نے سرکاری نوکری چھوڑدی۔ ان میں سے اکیلے ایمس کے ہی 19 ڈاکٹر شامل ہیں۔ بعض ڈاکٹر بہتر تنخواہ کے لئے دوسرے ہسپتالوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ سال2011 سے 2014 تک مرکزی سرکار کے ذریعے چلائے جارہے چار بڑے ہسپتالوں ایمس، صفدر جنگ، لیڈی ہارڈنگ اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا ہسپتال سے 7 ڈاکٹروں نے نوکری چھوڑی ۔ ان میں سے سب سے زیادہ 19 ڈاکٹر ایمس سے اور 17 ڈاکٹر صفدرجنگ سے نوکری چھوڑ کر گئے۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے گھریلو مسئلوں اور بہتر کیریئر موقعوں کی وجہ سے استعفیٰ دیا۔ادھر اس معاملے میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ایس کے تھار کا کہنا ہے کہ لوہیا ہسپتال سے استعفیٰ دینے والے زیادہ تر ڈاکٹروں نے دیش کے دوسرے حصوں میں کھل کر ایمس جوائن کرلئے ہیں کیونکہ ایمس میں ڈاکٹروں کا پے اسکیل زیادہ ہے۔ نجی ہسپتال کھل رہے ہیں وہاں بھی ڈاکٹر جا رہے ہیں کل ملا کر دہلی میں مریضوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن اور مودی سرکار کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ غریبوں کا صحیح اور سستا علاج کروائیں اور غریبوں کو علاج کی وجہ سے اجڑ نے سے بچائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!