دنیا جھکتی ہے بس جھکانے والا چاہئے


گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کا ستارہ آہستہ آہستہ بلندیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب تو ان کی بین الاقوامی ساکھ بھی بدلنے لگی ہے اب تو امریکہ بھی کہنے لگا ہے نریندرمودی کا ان کے یہاں خیر مقدم ہے۔ غور طلب ہے کہ سال2002ء میں گجرات میں بھڑکے فسادات کے بعد امریکہ نے 10 سال کے لئے نریندر مودی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ انہیں امریکہ آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یہی حالت برطانیہ کی بھی تھی لیکن پچھلے دنوں برطانوی ہائی کمشنر جیمس بیون نے اچانک نریندر مودی سے ملاقات کی اور ایک چھوٹے سے خیر سگالی وفد کے ساتھ وزیر اعلی سے ملاقات کے لئے صبح 11 بجے بیون گاندھی نگر میں مقامی ریاستی سکریٹریٹ پہنچے۔ ان کے ساتھ کاروبار اور دیگر امورپر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گجرات کے ساتھ ہمیشہ تعاون ریاست میں برطانیہ کے مفادات کو بڑھانے کے لئے صحیح راستہ ہے۔ یہ گجرات کے ساتھ تعاون کا موضوع ہے اور کسی ایک شخص سے وابستہ معاملہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے اگرہم کسی ریاست کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریاست کے وزیر اعلی سے جڑنا ہوگا کیونکہ نریندر مودی گجرات کے مقبول لیڈر بن گئے ہیں۔ وزیر اعلی نے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ’دیر آید درست آید‘۔ مسٹر مودی سے برطانوی ہائی کمشنر کی ہائی پروفائل ملاقات کو کاروباری اور سیاسی سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ بھارت سرکار کو لیکر بھاجپا نیتاؤں تک سبھی مان رہے ہیں کہ برطانوی حکومت کے رویئے میں تبدیلی بھارت کے سیاسی حالات کے تجزیئے کا نتیجہ ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کے رویئے میں تبدیلی آخر کیوں آرہی ہے؟ مارکیٹ کے ماہرین کے مطابق امریکہ کے رویئے میں تبدیلی کی تین اہم وجوہات ہیں ۔ پہلا مودی بھارت کی بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر کی شکل میں ابھر رہے ہیں۔ دوسرا نریندر مودی اقتصادی ترقی کو لیکر کافی سنجیدہ لگتے ہیں۔ گجرات میں ان کے عہد میں ہوئی اقتصادی ترقی کو دنیا کے کئی ملکوں نے کھل کر سراہا ہے ۔ تیسری اہم وجہ ہے مودی کی ساکھ ایک ایسے اہم لیڈر کی شکل میں سامنے آرہی ہے جو ریاست کی سیاست سے اوپر اٹھ کر سیدھے طور پر قومی سیاست میں آسکتے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی چناؤ مہم زوروں پر ہے۔ چناؤ مہم میں اوبامہ اپنی ہر تقریر میں اس بات کو دوہرانے سے نہیں کتراتے کے انہیں امریکہ کو اقتصادی مندی سے باہر نکالنے کے لئے بھارت جیسے ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ بیرونی معاملوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی جانتے ہیں کہ امریکہ کے کانگریس کے ساتھ تجزیئے ٹھیک ہیں لیکن بی جے پی کے ساتھ وہ بات نہیں ،ایسے میں امریکی انتظامیہ اس بات کا اشارہ دینا چاہتا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ تعلقات سدھارنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں بھارت کے رشتے مزید مضبوط بنانے میں دقت نہ ہو۔ برطانیہ اور امریکہ کے بدلے رویئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی میں پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ رہا سوال بی جے پی کا تو پارٹی نے بدلی ہوا کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان بلبیر پنج کا کہنا ہے آخر سچ کی جیت ہوئی اور پوری دنیا کی نظریں اس وقت گجرات چناؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ کانگریس کے سامنے جہاں مودی کے وجے رتھ کو روکنے کی چنوتی ہے وہیں مودی کے سامنے جیت کی ہیٹ ٹرک لگانے کی بھی چنوتی ہے۔ چناوی جنگ کا نتیجہ تو20 دسمبر کو آئے گا لیکن گجرات میں نریندر مودی کا ستارہ اب بھی تیزی سے چمک رہا ہے۔ ایماندار اور ترقی پسند لیڈر کے طور پر مودی ایک بار پھر اگلے ماہ ہونے والے چناؤ میں بھاجپا کی جیت کا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔ مختلف اوپینین پول اس بات پر متفق ہیں کہ گجرات چناؤ میں نریندر مودی جیت رہے ہیں۔ بس دیکھنا تو اتنا ہے کہ بھاجپا کتنی اسمبلی سیٹیں جیت سکتی ہے۔ دنیا جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!