ووٹ عام آدمی کا اور سرکارصنعت کاروں کیلئے


یہ منموہن سنگھ سرکار دعوی تو کرتی ہے کہ وہ عام آدمی کی سرکار ہے لیکن صنعت کاروں کے لئے کام کرتی ہے اور رہا سوال عام آدمی کا تو اس کا حال تو اس سرکار کے عہد میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے اور عام آدمی کی تھالی سے دال، سبزی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی ہے۔ یہ سرکار صنعت کاروں کی ہے اور ان کے اشاروں پر ناچتی ہے۔تازہ کیبنٹ میں ردوبدل سے یہ ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے۔ منموہن سنگھ کیبنٹ توسیع میں سب سے بڑا جھٹکا سابق مرکزی وزیر پیٹرولیم جے پال ریڈی کو دیا گیا۔ انہیں اس لئے دیا گیا کیونکہ ریلائنس انڈسٹری کے مالک مکیش امبانی سے انہوں نے پنگا لینے کی جرأت دکھائی تھی۔ ان کی وزارت بدل دی گئی ہے اور ان کی تنزلی کی گئی ہے۔ وہ کافی اہمیت کے حامل پیٹرولیم وزارت میں وزیر رہے۔ ردوبدل میں کم اہم وزارت سمجھا جانے والا سائنس اور تکنالوجی وزارت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ اپنی وزارت بدلے جانے سے ناراض جے پال ریڈی نئے پیٹرولیم وزیر کا عہدہ سنبھالنے کے وقت بھی وزارت نہیں پہنچے۔ جب نئے پیٹرلیم وزیر سے اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ اس کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے۔ حالانکہ کانگریس کے بڑے لیڈروں سے بات چیت کے بعد جے پال ریڈی نے سائنس و تکنالوجی وزارت کی ذمہ داری سنبھالنے کی اپنی منظوری دے دی۔ جے پال ریڈی کو پیٹرولیم وزارت سے ہٹانے کے پیچھے کہانی کم دلچسپ نہیں ہے۔ جے پال کے قریبی لوگوں کی مانیں تو ریلائنس کی طرف سے یہ دباؤ بنایا جارہا تھا کہ وہ کے جی ڈی 6 بیسن سے نکلنے والی گیس کی قیمت اپنی طے میعاد سے پہلے بڑھا دیں۔ قابل ذکر ہے ریڈی نے 2011ء میں مرلی دیوڑا سے پیٹرولیم وزارت کی ذمہ داری لی تھی۔ سال2010 ء میں وزرا کے اختیار یافتہ وزارتی گروپ نے ریلائنس کے کے جی ڈی 6 بیسن سے نکلنے والی گیس کی قیمت 2010 تا2014 تک کے لئے طے کردی تھی۔ ریلائنس انڈسٹری کھدائی کی قیمت میں بڑھوتری کا حوالہ دیکر گیس کی قیمت2012ء میں ہی بڑھانے کا دباؤ پیٹرولیم وزارت پر ڈال رہی تھی۔ ریڈی نے ایک طرف تو ریلائنس کے دباؤ میں آنے سے انکار کردیا وہیں دوسری طرف2011-12 کے دوران کمپنی کی پیداوار میں آئی کمی پر کمپنی سے سوال جواب کیا گیا۔ کمپنی کا کہنا ہے کیونکہ کے جی ڈی بیسن کا یہ علاقہ ایسی جگہ پڑتا ہے جہاں کھدائی مشکل ہے اس لئے پیداوار پہلے کی بہ نسبت کم ہوئی ہے۔ جے پال ریڈی کو یہ دلیل ہضم نہیں ہوئی کیونکہ جس علاقے میں 2010ء میں پیداوار 53-54 ملین کیوبک میٹر گیس تھی وہ اچانک اتنی کم کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ ہی نہیں جے پال نے معاملے کی جانچ سی اے جی سے کرانے کی بھی ہدایت دے دی تھی۔ پیٹرولیم وزارت سے اپنی دال گلتے نہ دیکھ مکیش امبانی نے وزیر اعظم کے دفتر میں اپنے دبدبے کا استعمال کر جے پال ریڈی پر دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ریلائنس کی کوشش سے ناراض جے پال نے ریلائنس پر کم گیس کی پیداوار کے لئے 7 ہزار کروڑ روپے کا جرمانہ ٹھونک دیا اور خرچ میں اضافے کا حوالہ دیکر برٹش پیٹرولیم کو اپنا کچھ شیئر بیچنے کی کوشش میں لگے ریلائنس کو اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس معاملے سے اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ اس سرکار پر صنعت کاروں کا کتنا دبدبہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟