جہیزی اذیت معاملوں میں گھروالوں کو بے وجہ نہ پھنسایا جائے


ہمیں خوشی ہی کہ بصد احترام سپریم کورٹ نے جہیزی معاملوں میں ایک اہم فیصلہ سنا دیا ہے۔ ہم نے ویر ارجن، پرتاپ اور ساندھیہ ویر ارجن میں جہیز سے متعلق معاملوں میں شوہر کے گھروالوں کو زبردستی پھنسانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ہم نے بتایا تھا کہ لڑکی والوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار آگیا ہے کہ وہ شوہر کے پورے خاندان کو جہیز کے معاملے میں جبراً لپیٹ لیتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ جہیز سے متعلق معاملوں میں شوہر کے گھروالوں کو صرف اس بنیادپر نہیں پھنسادینا چاہئے کہ ان کا نام ایک ایف آئی آر میں درج ہے۔ اگر یقینی طور پر کوئی الزام بنے تبھی ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ ایف آئی آر میں نام ہے لیکن اس میں سرگرم رول نہ ہو تو نوٹس لینا مناسب نہیں ہوگا۔ جسٹس ٹھاکر و جسٹس گیان سدھا مشرا کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ اگر ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف یقینی الزامات واضح نہیں ہوں ،خاص کر شریک ملزمان کے خلاف جو ازواجی جھگڑے کے دائرے سے باہر ہوں۔ ایسے میں ایف آئی آر میں ان کا نام شامل کر تکنیکی طور پر مقدمے کے لئے بھیجا جانا صاف طور پر قانون و عدلیہ کی کارروائی کا بیجا استعمال ہے۔ بنچ نے کہا شکایت کردہ بیوی کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے میں پہلی نظر میں ملوث نہ پائے جانے والوں کو بے وجہ مقدمے میں نہ الجھانا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں رشتے داروں پر لگائے گئے الزامات کے حقائق واضح نہیں ہوں یا شکایت کنندہ کی جانب سے پورے کنبے کو ایک ہی معاملے میں پھنسایا جانا پہلی نظر میں آئے تو عدالتوں کو چوکسی والا رویہ اپنا نا چاہئے کیونکہ چھوٹے مسائل یا گھریلو جھگڑے سے پیدا تنازعے میں اپنے اہم گواہ کے لئے شکایت کنندہ ایسا کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے صاف کہاکہ شریک ملزمان کے خلاف خاص الزام نہ ہونے کے باوجود اگر ان پر مقدمہ چلایا جاتا ہے تو قانونی عمل کا غلط استعمال ہوگا۔ جہیز اذیت کے ایک معاملے میں ملزم شوہر کے بھائی اور بہن کے خلاف چل رہی کارروائی منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا حالانکہ عدالت نے صاف کہا کہ اس میں شک نہیں کہ یہ قانون عورتوں پر ظلم روکنے کے لئے بنایا گیا ہے لیکن اس کا غلط استعمال نہ ہو یہ احتیاط عدالتوں کو برتنی ہوگی۔ عدالت کو پہلی نظر میں دیکھنا چاہئے کہ کس رشتے دار کا جرم بنتا ہے اور کسے پھنسایا جارہا ہے۔ اس معاملے میں ملزم کے بھائی بہن نے اپیل داخل کی تھی۔ کچھ برس پہلے تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر جنرل نے ہمیں تہاڑ میں قیدیوں کی سہولت اور ان کے ذریعے کئے جارہے اچھے کاموں کو دکھانے کے لئے مدعو کیا تھا۔ میں نے تہاڑ کے کئی ایسے کنبے دیکھے ہیں جو جہیزاذیت کی وجہ سے بن تھے۔ ایک خاندان تو ایسا تھا جس کے سارے مرد بند تھے۔ایک خاندان میں ملزم ان کے ماں باپ ،چھوٹی بہن، چھوٹا بھائی بند تھا۔ ایک خاندان نے ہمیں بتایاکہ ملزم شخص کے بھائی، بہنوئی جو دہلی میں رہتے ہی نہیں انہیں بھی اندر کردیا گیا کیونکہ لڑکی والوں نے ان کا نام ایف آئی آر میں لکھوادیا تھا۔ کئی عورتیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ جیل میں بند تھیں کیونکہ ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے جیل کے باہر کوئی کنبے والا بچا نہیں تھا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو تو یہ ہے کہ اتنی سخت کارروائی ہونے کے باوجودقتلوں میں کوئی قابل قدر کمی نہیں آئی ہے۔ سماج میں آئی برائیوں کو روکنا ضروری ہے۔ جہیز کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی لیکن موجودہ قانونی سسٹم میں سدھار ہونا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سمت میں صحیح قدم اٹھایا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟