بڑھتی جارہی ہے لا پتہ بچوں کی تعداد: معصوموں کی فکر کسے؟


دیش میں بچے لاپتہ ہونے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں یہ سبھی کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے۔ ایک ویلفیئر اسٹیٹ اور مہذب سماج کے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ دیش بھر میں ہر سال 90 ہزار بچے غائب ہوجاتے ہیں۔ راجدھانی میں اس سال 10 مہینے کے اندر 100-50 نہیں بلکہ1040 بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ آخر یہ بچے کہاں گئے؟ یہ اس لئے غائب ہورہے ہیں کیونکہ یہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ماں باپ ان کے لئے اچھی غذا، کپڑا اور تعلیم کا انتظام نہیں کرسکتے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے قصبوں سے آتے ہیں۔ انہیں بہلا پھسلا کر سبز باغ دکھا کر نوکری کے بہانے میٹرو شہروں میں لایا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے بچوں کو بھیک مانگنے یا کسی خطرناک کام میں لگادیا جاتا ہے یا پھر جسم فروشی میں جھونک دیا جاتا ہے۔کچھ خوش قسمت لڑکیاں اس جہنم سے نکل جاتی ہیں باقی تمام عمر اسی جہنم میں زندگی میں بسرکرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ راجدھانی دہلی کے کئی علاقوں میں معصوم بچوں کا اغوا کر جنسی استحصال کرنے کے بعد ان کو مار دینے کے واقعات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ واردات جہاں ایک طرف آوارہ گھومنے والے نشیڑیوں کی دھڑ پکڑ کے تئیں انتظامیہ کے بے توجہی کا اشارہ کرتی ہے وہیں یہ بچوں کی سلامتی کے تئیں پولیس انتظامیہ کے لاپرواہ روئے کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ 
جمعرات کو دہلی میں پولیس نے بچوں کو اغوا کر جنسی استحصال کے بعد ان کو قتل کردینے کے واقعات کو انجام دینے والے گروہ کوایک بچے کی مدد سے بے نقاب کرنے کا دعوی کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا۔ دونوں کی گرفتاری سے کھجوری علاقے کے بھائی بہن کا قتل ،بھجن پورہ علاقے میں تین سالہ بچی کو بدفعلی کے بعد کوڑے دان میں پھینکنے کی واردات کا سنسنی خیز خلاصہ ہوا ہے۔ گرفتار ملزمان نشے کے عادی ہیں۔ نشے کے بعد وہ حیوان بن جاتے ہیں اور بچوں کو کچھ لالچ دے کر اغوا کرلیتے ہیں۔ قابل غور ہے 1974ء میں پارلیمنٹ نے بچوں کے لئے ایک قومی پالیسی پر مہر لگائی تھی جس میں انہیں دیش کا قیمتی ورثہ اعلان کیا گیا تھا۔ آئی پی سی کے دفعہ372 میں نابالغ بچوں کی خریدو فروخت پر 10 سال کی سزا قید کی سہولت ہے لیکن اس معاملے میں سزا دئے جانے کی شرح بیحد کم ہے۔ سرکاری مشینری کے ڈھیلے پن کو دیکھتے ہوئے کچھ مہینے پہلے سپریم کورٹ نے اس اشو پر مرکز اور ریاستی حکومتوں سے جواب مانگا تھا۔ آج ملزمان کے کئی گروہ بچوں کو غائب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ خود سرکار نے 900 ایسے منظم گروہ کی پہچان کی ہے۔ ان کا جال کئی ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ بچوں کی سلامتی خاص کر دہلی میں پولیس انتظامیہ کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ بچوں کے غائب ہونے اور اغوا یا قتل کردئے جانے کے واقعات آئے دن درج ہوتے رہتے ہیں۔ اسی برس اب تک راجدھانی میں ایک ہزار بچوں کے غائب ہونے کے معاملے ظاہر کرتے ہیں کہ دہلی کس حد تک بچوں کے لئے غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ ایسے معاملوں میں سختی سے نمٹنا ہوگا۔ اس کیلئے مختلف ریاستوں کی پولیس کے درمیان بہتر تال میل کرنا ہوگا۔ بچوں کی سلامتی کو لیکر والدین کو مزید بیدارکرنے اور اس کے لئے مخصوص بیداری مہم چلانا ہی بہتر رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!