رابرٹ واڈرا کو کلین چٹ پر اٹھے سوال


یوپی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کو ہریانہ حکومت کی جانب سے جلد بازی میں دی گئی کلین چٹ پر سوال کھڑے ہونا فطری ہی ہے۔ اس معاملے میں خلاصہ کرنے والے سیاسی ورکر اروند کجریوال ہی نہیں بلکہ بھاجپا اور ہریانہ کے سابق وزیراعلی اوم پرکاش چوٹالہ نے بھی اسے ریاستی حکومت کی جانب سے واڈرا کو بچانے کی کوشش قراردیا ہے۔ کجریوال نے جمعہ کو کہا کیا لوگوں کو بتایا جائے گا کہ کونسے قانون کی کس دفعہ کے تحت جانچ کی گئی اور کس نے یہ جانچ کی؟ سارے دیش میں ان کا کرپشن صاف نظر آیا لیکن ہریانہ حکومت نے انہیں کلین چٹ دے دی۔ کجریوال نے کہا کہ سرکار سے ان کو یہ ہی امید تھی۔ معاملہ سامنے آنے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی سرکار کے سبھی وزیروں نے انہیں صحیح بتادیا تھا کہ ایسے میں غیر منصفانہ جانچ ہوہی نہیں سکتی تھی۔ ایسے میں بااثر لوگوں کی جانچ کے لئے دیش میں کوئی ایجنسی ہی نہیں ہے اس لئے غیرجانبدارانہ لوکپال بنانا ضروری ہے۔ بھاجپا کے ترجمان پرکاش جاویڈکر نے اسے ’’از خود سرٹیفکیٹ‘‘ مانتے ہوئے کہا کہ ہریانہ سرکار کی جانچ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے وڈرا کے اس دعوے کی بھی جانچ کی مانگ کی جس میں انہوں نے کارپوریشن بینک سے 7.94 کروڑ روپے کا اوور ڈرافٹ لینے کی بات کہی ہے جبکہ کارپوریشن بینک نے اس کی تردید کی ہے۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر راجناتھ سنگھ نے اس معاملے کی سپریم کورٹ سے جانچ کرانے کی مانگ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہی ڈپٹی کمشنروں نے زمین الاٹ کی تھی تو وہ کیوں کہیں گے غلط ہوا؟ اس لئے سچائی تبھی سامنے آئے گی جب واڈرا کی زمین کے سودوں کی منصفانہ جانچ ہو۔ شری اوم پرکاش چوٹالہ نے اس معاملے کی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا سرکار ہی بے ایمانی کرے اور وہی جانچ کرے اس کے سامنے کیا رہ جاتا ہے۔ بہرحال کانگریس پارٹی کے ترجمان سندیپ دیکشت نے کہا کہ سرکار حقائق کی بنیادپر کام کرتی ہے۔ آپ بتائے کن قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ بغیر جانچ کے کوئی افسر بیان نہیں دیتا۔ ادھر ہندی اخبار روزنامہ امر اجالا میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے فرید آباد، گوڑ گاؤں، میوات اور پلول کے ڈپٹی کمشنروں نے سرکار کے پاس ادھوری رپورٹ بھیج کر واڈرا کو کلین چٹ دے دی ہے۔ رپورٹ میں واڈرا یا ان کی کمپنی نے کتنی زمین کس نام سے خریدی یہ جانکاری تو دے دی گئی ہے لیکن واڈرا یا ان کی کمپنیوں نے زمین بیچی یا نہیں یہ معلومات نہیں ہے۔ ایڈیشنل چیف سکریٹری محصول کو میوات کے ڈپٹی کمشنر نے 23 اکتوبر پلول اور فرید آباد کے ڈپٹی کمشنروں نے 25 اکتوبر کو رپورٹ بھیج کر کہا ہے کہ اسٹامپ ڈیوٹی یا رجسٹریشن فیس میں سرکاروں کو نقصان نہیں ہوا۔ گوڑ گاؤں کے ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ ہی نہیں بھیجی انہوں نے 16 اکتوبر کو معلومات فراہم کی تھیں کہ واڈرا نے ڈی ایل ایف کو جو 3.5 ایکڑ زمین بیچی تھی اس میں اسٹامپ ڈیوٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ رجسٹری بھی ٹھیک تھی اور داخل خارج بھی صحیح تھا۔ ایک اور بات رابرٹ واڈرا کو بچانے کے لئے ہریانہ کی ہڈا سرکار نے اپنا قانون ہی بالائے طاق رکھ دیا۔ چکبندی ایکٹ کے تحت جہاں ایک شخص ، کمپنی ، خاندان، ایسوسی ایشن یا کوئی دیگر ادارہ ہریانہ میں زیادہ سے زیادہ دو فصل دینے والی سنچائی کے لائق زمین 18 ایکڑ اور غیر سنچائی والی زمین زیا دہ سے زیادہ 54.5 ایکڑ زمین رکھتی ہے وہیں واڈرا اور ان کی کمپنیوں کے نام پر دسمبر2010 ء تک قریب 148 ایکڑ زمین ہریانہ میں تھی باوجود اس کے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے نہ تو ان کی زمین فاضل اعلان کی اورنہ ہی لینڈسلنگ ایکٹ کے تحت کوئی کارروائی کی تھی۔ سلنگ قانون کے مطابق واڈرا نے خرید میں اس قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور فرید آباد، گوڑ گاؤں، میوات، پلول کے ڈپٹی کمشنروں نے نہ صرف ادھوری تفصیلات دیں بلکہ ریاست کے قانون کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی اور ہریانہ کی کانگریسی حکومتیں رابرٹ واڈرا کے سودوں کو دبانے میں کامیاب رہتی ہیں یا پھر معاملوں کی صحیح اور منصفانہ جانچ ہوگی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!