سبھاش پارک میں ناجائز تعمیرات پر ہائی کورٹ کا ہمت افزاء و لائق تحسین فیصلہ


دہلی ہائی کورٹ کی اسپیشل بنچ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ایم ایل مہتہ اور جسٹس راجیو شکدھر نے جمعہ کو ایک افزاء فیصلہ دیا۔ معاملہ تھا دہلی کے سبھاش پارک میں ناجائز مسجد بنانے کا۔ قابل غور ہے کہ میٹرولائن بچھانے کے دورن سبھاش پارک میں ایک دیوار ملی تھی جسے ایک فرقے نے مبینہ طور سے اکبری آبادی مسجد کے باقیات قرار دیتے ہوئے وہاں راتوں رات تعمیر شروع کردی۔ اس مسئلے کو لیکر کچھ تنظیم دہلی ہائی کورٹ پہنچی اور اس ناجائز تعمیرات کو ہٹانے کی درخواست کی۔ ہائی کورٹ نے 30 جولائی کو پولیس کو یہ ناجائز تعمیرات ہٹانے کے لئے ایم سی ڈی کو فورس دستیاب کرانے کی ہدایت دی تھی لیکن ایم سی ڈی نے 31 جولائی کو ہی پولیس کو خط لکھ کر فورس دینے کی درخواست کی تاکہ عدالت کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ پولیس نے درخواست دے کر دلیل رکھی کہ رمضان، یومیہ آزادی کی تیاریوں کی وجہ سے پولیس فورس مصروف ہے اس لئے ایسے میں فورس مہیا کرانا ممکن نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ ان کی نظر میں پولیس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ امن و قانون کی صورتحال بنائے رکھے اور کوئی بھی قانون نہ ٹوٹے۔ اتنا ہی نہیں پولیس نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ناجائز مسجد گرانے کے لئے ممبر اسمبلی شعیب اقبال کو ہدایت جاری کی جائے۔ عدالت نے پولیس کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ پولیس معاملے میں ضروری فورس ایم سی ڈی کو مہیا کرائے اور یہ کارروائی جلدی کی جائے۔ ادھر مقامی ممبر اسمبلی شعیب اقبال نے عرضی دائر کرکے اے ایس آئی کے کام کا معائنہ کرنے کے لئے ایک ماہرین کی کمیٹی بنانے کی بات کہی۔ اس پر عدالت نے کہا عرضی کے ذریعے ممبر اسمبلی نے ایک بار پھر معاملے کو لمبا کھینچنے کی کوشش کی۔ عدالت اپنے 30جولائی کے حکم میں ان معاملوں پر پہلے ہی غور کرچکی ہے۔ اے ایس آئی پورے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔یہ ایک تکنیکی کام ہے اور اس پر نہ تو شبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ شعیب اقبال کی عرضی خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ماہرین کمیٹی یا لوکل کونسلر مقرر کئے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس معاملے میں عرضی گذار اے ایس آئی کے اوم جی کے ذریعے ان پر حملے کو لیکر سکیورٹی سسٹم کی مانگ معاملے کا نپٹارہ کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ دہلی پولیس عرضی گذار کی مانگ پر غور کرتے ہوئے اس پر مناسب کارروائی کرے۔ عدالت نے صاف کہا اے ایس آئی کے ذریعے اس جگہ کے سلسلے میں 17 جولائی کو جاری نوٹس کے تحت کارروائی کی جائے۔ اے ایس آئی نے اپنے نوٹس میں صاف طور سے کہا تھا کہ لال قلعہ، سنہری مسجد ایک محفوظ زون ہے اور اس کے آس پاس کسی بھی طرح کی تعمیر یا مرمت وغیرہ ممنوع ہے۔ سبھاش پارک میں ہوئی تعمیراسی زون میں آتی ہے اور اسے 15 دن میں ہٹایا جائے۔ اتنا ہی نہیں تعمیر کرنے والوں کے خلاف معاملہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے۔ آخر میں بنچ نے یہ بھی کہا کہ پوری متنازعہ جگہ سیل بند ہے اور وہاں کام میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ بنچ نے صاف کیا کہ اگر اس جگہ پر سروے میں مسجد ہونے کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ جگہ بھی ایک تحفظاتی عمارت مانی جائے گی ایسے میں وہاں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم ہائی کورٹ کی بنچ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس ہمت افزاء فیصلے کی تعریف کرتے ہیں۔ سوال ایک ناجائز تعمیرات کا نہیں بلکہ قانون کی دھجیاں اڑانے کا ہے۔ ایسے راتوں رات کئی پوجا مقامات کھڑے ہوجائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو ہمت ہائی کورٹ کی بنچ نے دکھائی ہے کیا دہلی پولیس بھی ویسا ہی حوصلہ دکھائے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟